لاہور کے بارے میں اس کا ذکر کرتے ہوئے اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ لاہور پاکستان کو دینے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں تھا ۔ اس حوالے سے پاکستانیوں کو میرا شکر گزار ہونا چاہیے کہ میں نے تقسیم کے فارمولے سے ہٹ کر انہیں لاہور سونپ دیا جو کہ بھارت کا حصہ ہونا چاہیے تھا اس موقع پر میں نے ہندوؤں اور سکھوں کے مقابلےمیں مسلمانوں کا زیادہ ساتھ دیا۔ اس طرح کے کئی اور قصے کہانیاں اور واقعات ان کی ذمہ داریوں اورکارناموں سے جڑے ہوئے ہیں جو کافی حیران کن چونکا دینے والے ہیں۔ جن میں ایک واقعہ تو لاہور کو پاکستان میں شامل کرنے کے بارے میں ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے ۔ بلا شبہ اس اقدام پر ہم پاکستانیوں کو ان کا شکر گزار ہونا بھی چاہئے لیکن دوسری جانب پاکستان اور بھارت کی تقسیمکے وقت پنجاب میں علاقوں کے حوالے سے جب ایسے فیصلے کیے جارہے تھے کے پنجاب کا کون سا حصہ بھارت میں رہے گا اور کون سا حصہ پاکستان میں ہوگا ۔ان میں ضلع گورداسپور اور ضلع فیروز پور کی تقسیم کے حوالے سے ہونے والی ناانصافیوں اور سازشوں کا ذکر بھی ضرور ہونا چاہئے ۔کیونکہ ضلع گورداسپور اور ضلع فیروز پور کی تقسیم قیام پاکستان کی تاریخ کا ایک نوحہ ہے ۔
برطانوی راج کے تحت گورداسپور صوبہ پنجاب کا شمالی ترین ضلع تھا۔ ضلع کو انتظامی طور پر چار تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تحصیل شکر گڑھ، تحصیل گرداسپور، تحصیل بٹالا اور تحصیل پٹھان کوٹ۔ چار تحصیلوں میں سے صرف تحصیل شکر گڑھ جو دریائے راوی سے باقی ضلع سے جدا تھی پاکستان کو دی گئی۔ باقی تمام ضلع بھارت کی ریاست مشرقی پنجاب کا حصہ بنا۔تقسیم پنجاب کے دوران سب سے بڑا ظلم اسی ضلع گورداسپور کے ساتھ ہوا۔ اکثریتی آبادی کے تناسب سے تقسیم کرنے کی بجائے ضلع گورداسپور کو تحصیل کی بنیاد پرتقسیم کردیا گیا۔ گورداسپور کی چار تحصیلیں تھیں جن میں تحصیل بٹالہ 53 فیصد مسلمان تحصیل گورداسپور 51 فیصد تحصیل شکر گڑھ 51 فیصد اور تحصیل پٹھانکوٹ 33 فیصد مسلمان آبادی تھی۔ یعنی پٹھانکوٹ کے علاوہ باقی ہر تحصیل میں مسلمان زیادہ تھے۔ اور پورے ضلع کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 51.1 فیصد تھا جبکہ سکھ 23.3 فیصد ہندو 21.2 فیصد اور 4.4 فیصد مسیحی بھی اس ضلع کے باسی تھے۔ اور عیسائی پاکستان میں شمولیت کے حامی تھے۔یہاں پورا ضلع پاکستان کو دینے کی بجائے دو مسلم اکثریتی تحصیلیں بٹالہ گورداسپور انڈیا اور ایک شکر گڑھ پاکستان کو دی گئی۔ اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تقسیم آبادی کی بنیاد پر نہیں بلکہ دریائے راوی کے حساب سے ہوئی۔ یہی سبب ہے کہ شکر گڑھ ضلع گورداسپور کی واحد تحصیل تھی جو دریائے راوی کے اس پار تھی اس لئے اسے پاکستان میں شامل کر کے باقی پورا ضلع انڈیا کو دے دیا گیا۔
گورداسپور بھارت کو دینے کے جواز کے حوالے کے طور پر لارڈ ماؤ نٹ بیٹن اور دیگر سرحد کمیشن کے سامنے جو دلائل پیش کیے گئے ان میں کہا گیا کہ بھارت کو ریاست کشمیر تک رسائی دینے کیلئے ضروری ہے کہ اگر ریاست کے حکمران بھارتی یونین کے ساتھ الحاق کر نا چاہیں تو مشکلات سے بچا جاسکے۔تحصیل پٹھان کوٹ وسطی پنجاب کے ملحقہ شہر ہوشیارپور اور کانگڑا کے ساتھ ایک براہ راست ریلوے سے منسلک تھا۔بٹالااور گرداسپور کی تحصیلیں سکھوں کے مقدس شہر امرتسر کے لیے ایک بفر فراہم کریں گی۔اگر دریائے راوی کے مشرقی علاقے کو ایک بلاک تصور کیا جائے تو یہ تھوڑا غیر مسلم اکثریتی علاقہ ہو گا۔ یہ بلاک امرتسر اور ضلع گرداسپور کی تمام تحصیلوں (شکرگڑھ کو چھوڑ کر) پر مشتمل ہو گا۔اس کے علاوہ اس طرح سے سکھ آبادی کی اکثریت (58 فیصد) مشرقی پنجاب میں شامل ہو جائے گی۔یہ اقدام سکھ آبادی کو مطمئن کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔اسطرح ضلع گورداسپور کو تحصیل کی بنیاد پرتقسیم کرنے کی ایک سے زیادہ ایسے عذر سامنے آتے ہیں جنہیں ہم واضح طور پر غیر منصفانہ قرار دے سکتے ہیں۔ضلع گرداسپور کا زیادہ حصہ بھارت کو دیے جانے کو متوازن کرنے کے لیے ریڈکلف نے ضلع فیروزپور کی تحصیلیں فیروزپور اور زیرا پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کی، لیکن بیکانیر کے مہاراجا نے اس کی مخالفت کی ۔
فیروزپور 50 لاکھ کی آبادی والا مسلم اکثریتی ضلع تھا جو دریائے ستلج کے جنوبی کنارے واقع تھا۔ اس ضلع کی اہمیت اس میں قائم واٹر ہیڈ تھے جن سے بیکانیر کی شاہی ریاست سیراب ہوتی تھی۔ یہ اپنی جغرافیائی اہمیت کے اعتبار سے ایک نمایاں مقام تھا۔یہاں پاکستان کی حدود کا تعین سکھوں کی زمین کے چالیس میل اندر تک کیا گیا جس کی سرحد جنوب سے امرتسر تک چلی جاتی تھی۔
8 اگست 1947 کو اس کے عارضی نقشہ میں اسی حد بندی کا تعین کیا گیا تھا ۔ اس میں فیروزپور کو پاکستان میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن فیروز پور کا پاکستان میں جانا بیکانیر کی ریاست کے لئے باعث تشویش تھا جس نے پہلے ہی بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر رکھاتھا۔ اس موقع پر بیکا نیر کے مہاراجہ نے 11 اگست کو ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی اور انہیں دھمکی دی کہ اگر فیروز پور کے واٹرہیڈ پاکستان کے حصے میں جائیں گے تو ہماری ریاست بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کرلے گی۔ بیکانیر کی ریاست فیروزپور کے ہیڈ ورکس سے سیراب ہوتی تھی۔ یہ ہیڈ ورکس پاکستان کے حصے میں جانے کا مطلب بیکانیر ریاست کی تباہی تھی۔ اس لئے ممکنہ تباہی سے بچنے کے لئے ریاست نے اعلان کیا کہ فیروزپور کے واٹرہیڈ جس حصے کے ساتھ جائیں گے وہ بھی اسی کے ساتھ الحاق کریں گے۔ ماؤنٹ بیٹن نے بیکانیر کی ریاست کی اس دھمکی کو سنجیدگی سے لیا۔ اور اسی رات ریڈکلف کو ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ دوپہر کے کھانے کا دعوت نامہ ملا۔ اس دعوت میں باؤنڈری کمیشن کے سیکرٹری کرسٹوفر کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں بُلایا گیا۔
باؤنڈری کمیشن کے سیکرٹری کرسٹوفر نے بعد میں گواہی دی کہ ریڈکلف جب اس دعوت سے واپس آئے تو وہ کافی تذبذب میں تھے۔ اس دعوت میں کیا ہوا ریڈ کلف نے یہ بتائے بغیر تقسیم ہند کے نقشے پر نئی لائنیں کھینچنا شروع کر دیں۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ دعوت کے دوران ہی کھانے کی ٹیبل میں کئی علاقے ادھر سے ادھر ہو گئے ان میں فیروز پور کا ضلع اور تحصیل زیرہ شامل تھی ۔ جو عین وقت پر پاکستان کی بجائے بھارت کے حصے میں دے دی گئی بتایا جاتا ہے کہ مائونٹ بیٹن بیکانیر کے مہاراجا کےدباؤ میں آگئے تھے اور فیروزپور بھارت کو دینا پڑ گیا تھا، اس طرح آخری وقت میں ضلع فیروز پور تبدیل کر کے پاکستان کی بجائے بھارت کو دے دیا گیا۔یعنی عین وقت پرفیروز پور بھی بھارت کے حصے میں آ گیا ۔یوں گورداسپور تو ہاتھ سے گیا اور فیروزپور و زیرا بھی نا ملا۔ گورداسپور انڈیا کو دینے پر جو مسلمان ابھی تک اس کے پاکستان میں شامل کیےجانے پر مطمئن تھے۔ وہ آخری لمحات میں گورداسپور بٹالہ پٹھانکوٹ سے ہجرت کرکے پاکستان آنے پر مجبور ہوگئے اورمختلف اندازوں کے مطابق تقریباً 5 لاکھ مسلمانوں نے ہجرت کی، جن میں 30 سے 50 ہزار کے قریب مار دئیے گئے یا گم ہوگئے اور پاکستان نا پہنچ سکے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کی تقسیم کا اعلان تو 14اگست اور 15 اگست 1947ء کو کردیا گیا تھا لیکن ریڈ کلِف باؤنڈری ایوارڈ کا فیصلہ 17 اگست 1947ء کو سامنے آیا تھا۔ جب دو ملک وجود میں آچکے تھے۔