حضرت میراں موج دریا ؒکی کرامت سے دیگ خالی نہ ہوسکی | Maa Ji ALLAH Waly

شہنشاہِ ہند جلال الدین اکبر کے دورحکومت میںحضرت بابا موج دریا بخاریؒ کی بزرگی کا چرچا ہرجگہ پھیل چکا تھاآپؒ کے پاس بہت سی جاگیریںتھیں ۔آپؒ نے اپنی جاگیروں کی تمام آمدن خدمت خلق کے لئے وقف کررکھی تھی۔جب آپؒ اُوچ شریف سے لاہور تشریف لائے تودور دراز سے لوگ لاہور میں آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ۔حضرت سید میراں محمد شاہ بخاری ؒکوموج دریا کا لقب سخا وت اور خدمت خلق کی بدولت حاصل ہوا۔آپؒ نے درس و تدریس کا خاص انتظام فرمایا، فقراء اور خا د مین کے لیئے مکانات بنوائے اور مسافروں کے لئے مسافرخانے تعمیر کروائے۔ تین بڑے لنگر خانے بھی آپؒ نے قائم کرکھے تھے جس میں سے لاہور کا لنگر خانہ بہت وسیع تھا جبکہ دو لنگر خانے بٹا لہ اور خان فتا میں تھے۔ان لنگرخانوں میں طرح طرح کے کھانے تیار کئے جاتے تھے جہاں ہزاروں لوگوں،عقیدت مندوں، مسافروں اور فقراء کو کھانا دیا جاتاتھے اس کے باوجود لنگر خانوں میں کبھی بھی کھانا کبھی کم نہیں ہوا تھا۔
ایک مرتبہ لگاتار بارشیں ہونے کی وجہ سے جب راستے بند ہوگئے تو اناج لنگر خانے تک نہ پہنچ سکا ادھرلوگوں نے چاول کھانے کو مانگے مگر لنگر خانے میں چاول کم تھے ۔ حضرت میراں موج دریا بخاریؒ اپنے حجرے میں یاد الٰہی میں مصروف تھے، لنگر خانے کا منتظم آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ'' لگاتار بارشوں کی وجہ سے چاولوں سے لدی ہوئیں بیل گاڑیا ں لنگر خانے تک نہیں پہنچ سکیں جبکہ لوگ چاہتے ہیں کہ اُنہیں چاول کھلائے جائیں۔''آپ ؒ مسکرائے اور فرمایا''اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، ایک دیگ چولہے پر چڑھادواور اُس میں ہم وزن چاول، گھی اور گوشت ڈال کر پکاؤ،جب دیگ تیار ہوجائے تو مجھے بتادینا۔'' لنگر خانے کے منتظم نے آپؒ کے حکم کی تعمیل کی اور دیگ میں ہم وزن چاول،گھی اور گوشت ڈال کر دیگ پکا کرتیار کرائی۔پھرلنگر خانے کامنتظم حضرت میراں موج دریا بخاریؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتایا کہ دیگ پک کر تیار ہوچکی ہے۔آپؒ نے پکی ہوئی دیگ کے اوپر ایک کپڑا ڈال دیا اور دیگ لنگر خانے میں رکھو ادی ۔اس کے بعدآپؒ نے فرمایاکہ''اب لنگر جاری کردو،جوجس قدر چاول مانگے ،اسے دیتے جاو اور کپڑا دیگ کے اوپر ہی رہنے دینا۔''لنگر خانے کے منتظم نے آپؒ کی ہدایت کے مطابق کپڑا دیگ کے اوپر رہنے دیا اور دیگ کے اندرسے چاول نکال کرلوگوںکو دیتا رہا۔چنانچہ ہزارو ں لوگ لنگر خانے آتے رہے وہ خود بھی پیٹ بھر کر کھاتے اوراپنے بچوں کے لئے بھی چاول گھروں کو لے جاتے رہے۔آپؒ کی کرامت کا یہ سلسلہ سات دن تک جاری رہا اس دوران دیگ کے اندر چاول ختم نہ ہوئے بلکہ جب بھی دیگ میں سے چاول نکالے جاتے وہ ایسے گرم ہوتے جیسے دیگ ابھی ابھی چولہے سے اُتاری گئی ہو ۔ایک ہفتہ گذرنے کے بعد جب بارشیں تھم گئیں اورراستے کھل گئے توکافی مقدار میں چاول لنگر خانے میں پہنچ گئے جس کے بعد حسب سابق لنگر کا انتظام جاری ہوگیا۔وہ دیگ کافی عرصہ تک آپؒ کے مریدین کے پاس رہی اور لوگوںمیں ''جادو کی دیگ'' کے نام سے مشہور و معروف بھی رہی۔ 
اسی طرح حضرت میراں موج دریا بخاریؒایک مرتبہ آ پ اپنی درسگاہ میں بیٹھے دینی تعلیم دے رہے تھے کہ زمینداروں کی ایک جماعت آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ ہمارے علاقے مزنگ اور گردونواح کا پانی بہت کھاری اور نمکین ہے جس سے ہماری فصلیں برباد ہوجاتی ہیں اس لئے آپؒ دعا فرمادیں کہ پانی شیریں ہوجائے ۔'' آپؒ نے اُسی وقت بارگاہِ الٰہی میں گریہ وزاری کے ساتھ پانی کے میٹھے ہونے کی دعا کی اور پھر اﷲتعالیٰ کی قدرت سے مزنگ کے علاقے کے تمام کنوؤں کا پانی میٹھا ہوگیا ۔مزنگ کا یہ علاقہ آج بھی اسی نام سے لاہور میںموجود ہے جہاں کا پانی آج بھی میٹھاہے ۔
اسی طرح جب شہنشاہِ ہند جلال الدین اکبر کو قلعہ چتوڑ کی مہم درپیش آئی اور قلعہ فتح نہ ہوسکا تواس نے فتح پانے کے لئے حضر ت میراں موج دریا بخاریؒ سے دعا کرنے کی درخواست کی۔ آپؒ جلال الدین اکبرکی درخواست کو قبول کرکے قلعہ کے پاس تشریف لے گئے اور تین مرتبہ بلند آواز کے ساتھ اپنی زبان مبارک سے اسم مبارک ''اﷲ''فرمایاتو اُسی وقت قلعہ فتح ہوگیا ۔بادشاہ سے لے کر غریب تک آپؒ کی دعا سے فیض یاب ہوتے رہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
حق، اللہ الصمد، دم صابر ولی
میراں موج دا دریا، کھولو رحم دی گلی