تجاہل، تغافل، تساہل کیا... | Professor Razzaq Shahid

Professor Razzaq Shahid Columns
        تجاہل، تغافل، تساہل کیا 
ہوا کام مشکل توکّل کیا
میرؔ نے نہ جانے یہ شعر کِس کیفیت میں کہا ہوگا، موجودہ حالات میں یہ پاکستانی عوام پر پورا اُترتاہے، ان دِنوں جبکہ موذی وائرس ’کورونا‘ کی دوسری لہر دنیا بھر میں تباہی مچا رہی ہے،دنیا میں اس وقت متاثرین کی تعداد پونے آٹھ کروڑ سے بڑھ چکی ہے،جبکہ اموات سترا لاکھ سے زائد ہو چکی ہیں، اس سے پاکستان بھی بُری طرح متاثر ہے،پونے پانچ لاکھ کے لگ بھگ متاثرین اورساڑھے نو ہزاراموات خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں، اس کے باوجود ہمارے مزاج، طرز عمل، سوچنے کا انداز اورمعاشرتی رویّے اسی مثلث ’تجاہل، تغافل، تساہل‘ کے گرد گھوم رہے ہیں. شروع میں جب اس ’وباء‘ نے چین کے صوبے ’ووہان‘ سے سر اُٹھایاتو پوری دنیا میں خوف وہراس پھیل گیا،میڈیا نے اس ہیجان کو مہمیز کرنے میں پورا زور لگایا، ہمارے یہاں ’بریکنگ نیوز‘ کی دوڑ میں ہر شئے داؤ پر لگانا معمول ہے،   عوام کی رہنمائی کی بجائے میڈیا خوف و ہراس پھلاتا رہا، جس سے صوبہ ’ووہان‘ سے پاکستانی طلباء کو واپس لانے پر دباؤ بڑھا. سوشل میڈیا تو پہلے ہی بے مہار ہے اس نے بھی معاملے کو خوب اُچھالا، مگر حکومت نے اس ایشو کو تحمل سے حل کیا اور کسی قسم کا دباؤ نہیں لیا،(جسے بعد میں دنیا بھر نے سراہابھی) جن ممالک نے خوف میں اپنے شہریوں کوچین سے نکالا گویا انہوں نے اس وباء کو اپنے ممالک میں دعوت دی. اس خبر کے ساتھ ہی ہمارے یہاں اس مثلث کے تینوں زاویوں کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا، ہم مسلمانوں نے ’کافروں‘ پر اسے اللہ کے عذاب سے تعبیر کیا، وضو کو مسلمانوں کیلیے ذریعہ نجات بنا کر پیش کیا گیا،مگرآج کوئی مسلم ملک ایسا نہیں جہاں اس وباء نے پنجے نہ گاڑھے ہوں،ہمارے یہاں جہالت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں پس ماندہ ممالک کی طرح شرحِ خواندگی بہت کم ہے اوپر سے سابق ادوار میں تعلیم کو نجی شعبے نے نفع بخش کاروبار بنا کر تعلیم کوعام آدمی کی پہنچ سے دور کر دیااور جہالت کو فروغ دیا،تعلیم کی کمی نے برداشت، تحمل اور صبر جیسی نعمتیں چھین کر ہمیں ’تجاہل، تغافل اور تساہل کے سپر د کر دیا ہے، کورونا جیسی وباء جسے عالمی ادارہئ صحت نے Pandemic(عالمی وباء) قرار دے کر دنیا بھر میں ’ہیلتھ ایمرجنسی‘ لگا رکھی ہے، مگر ہمارے کانوں پر جون تک نہیں رینگی.دنیا بھر میں متاثرین کی تعداد اور شرح اموات خطرے کی سنگینی کی طرف اشارہ کر رہی ہیں،خود پاکستان میں چند روز پہلے سو سے زائد اموات ”الارمنگ“ ہیں،مگر عوام کا ایک بڑا طبقہ اب بھی اس کی حقیقت تسلیم کرنے پر مائل دکھائی نہیں دے رہا، احتیا طی تدابیر پر عمل تو بعد کی بات ہے، جب ہم اصل حقیقت سے ہی انکاری ہیں تو احتیاط چہ معنی؟تساہل میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں،’سستی اور غفلت‘ جیسی جنسِ گراں میں بھی ہم خود کفیل ہیں، خانہ کعبہ جہاں کبھی طواف نہیں رُکتا تھا(مسلمانوں کی ایک اسی بات سے دنیا خائف تھی) وہاں بھی کورونا کے اثرات کے پیش نظر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا پڑیں، مگر ہم جہالت اور تغافل کی وجہ سے کسی خطرے کو خاطر میں لانے کیلیے تیار ہی نہیں. اکثریت کی زبان پریہ جملہ ہے”کورونا کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں، ایسے ہی ہمیں ڈرایا جا ر ہا ہے“ اس سے بڑی جہالت کیا ہو سکتی ہے؟ معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس واقعے کو سال گزر چکا مگر دنیا ابھی ’ویکسین‘کی تیاری، اس کی ٹسٹنگ کے مراحل سے آگے نہیں بڑھ سکی.جس پر اب بھی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں. یہاں سیاست کی کوئی کِل سیدھی نہیں،معاملہ کتنا سنگین ہو ہم ’پوائنٹ سکورننگ‘ کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے، ’کورونا‘ کو ہی لیجیے،اپوزیشن کی جانب سے  ’سخت لاک ڈاؤن‘پر اصرارتھا، جبکہ وزیرِ اعظم تحمل کی تلقین کے ساتھ یہ باور کروانے کی کوشش کرتے رہے کہ ہمارے حالات ترقی یافتہ ممالک سے مختلف ہیں،ہمارے یہاں آبادی کی اکثریت روزانہ کی بنیاد پر روزی کماتی ہے، لاک ڈاؤن کا مطلب ان سے روزی چھینے کے مترادف ہے، اس پر انہوں نے، ’سمارٹ لاک ڈ اؤن‘ کی اصطلاح متعارف کروائی، جسے نہ صرف حرفِ تنقید بنایا گیابلکہ اس کا مذاق اڑایا گیا، اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ صوبہ سندھ نہ صرف سب سے زیادہ متاثر ہے بلکہ وہاں نئی لہر میں متاثرین کا تناسب دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے، موجودہ لہر کے خطرناک ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا رہا ہے کہ ایک تو متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے دوسرا اموات کا تناسب  پہلے سے زیادہ ہے،ہماری کم عقلی کہ ان اعداد و شمار کو مذاق سمجھا جا رہاہے،حکومت جن”ایس او پیز“ پر پابندی کیلیے منت سماجت کر رہی ہے ہم اسے اپنی ضد بنا کر ان پر عمل نہ کرنے کی قسم کھائے ہوئے ہیں، ماسک جو اب دس روپے میں دستیاب ہے اس کی پابندی بھی ہم پر گراں ہے، سماجی فاصلہ تو جیسے کوئی گالی ہو، بات بس سے باہر ہو جائے تو ہم سب کچھ اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں، توکّل اپنی جگہ بہت اچھی بات سہی مگر توکّل سے پہلے اونٹ کو باندھنے کی شرط کو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں