تاریخ کی مختلف کتابوں سے منقول ہے کہ قوم عاد کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قدومامت،عمر اور طاقت عطا فرمارکھی تھی۔قوم عاد کے ہر فرد کا قد بارہ گز سے کم نہیں ہوتا تھا ۔ ان کے اندر طاقت بھی بہت زیادہ ہوتی تھی۔ کئی عام آدمی مل کر بھی جس بڑے پتھر کو اٹھا نہیں پاتے تھے، قوم عاد کا ایک آدمی آسانی سےاسے اپنے ایک ہاتھ سے اٹھا لیتا تھا۔اسی قوم کا ایک جاہ و جلال والا بادشاہ شداد تھا ۔شداد اپنے طاقتور لشکر کے ساتھ جس سلطنت پربھی حملہ کرتا،اسے باآسانی فتح کرلیتا یوں شداد نے پورے یمن کوفتح کرلیا۔اپنی فتوحات کے دوران اس نے بے شمار خزانہ لوٹ کر جمع کیا۔شداد کے طاقتور لشکر اور بے پناہ خزانے کے باعث کسی بھی سلطنت کے بادشاہ کو اس سے مقابلہ کرنے کی جرات نہ تھی۔آہستہ آہستہ شداد ایک وسیع سلطنت کا حکمران بن گیا، اس کی سلطنت یمن سے عراق اور بعض روایات کے مطابق ایران تک پھیل چکی تھی۔جب بادشاہ شداد اور قوم عاد کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازدیا توتو وہ سب غافل ہوگئے اور راہ حق سے بھٹک گئے اور کفر و شرک کرنے لگے۔اللہ تعالیٰ نے قوم عادکی ہدایت کے لئے حضرت ہود علیہ السلام کو بھیجا لیکن قوم عاد نے ہدایت پانے کی بجائے آپؑ کی باتوںکا مذاق اڑانا شروع کردیا۔حضرت ہود ؑ نے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا،جب آپؑ نے بادشاہ شداد کو ایک اللہ کی وحدانیت تسلیم کرنے اور اسی کی عبادت کرنے کا کہا توشداد نے غرور سے کہا کہ ''میرے پاس طاقت،دولت،سلطنت سب کچھ ہے پھر میں ایک اللہ کی عبادت کیوں کروں؟ اگر میں ایمان لے آوں تو مجھے کیا فائدہ ہوگا؟''آپؑ نے فرمایا''دنیا میں تمھارے پاس سب کچھ ہے لیکن اگرتم ایمان لے آئے تو آخرت کے بعد جنت تم پر حلال ہوجائے گی''شداد کو جنت کا تصور نہیں تھا،اس نے پوچھا''یہ جنت کیا ہے؟'' حضرت ہود ؑ نے اسے جنت اور اس میں پائی جانے اللہ کی تمام نعمتوں کے بارے میں بتایا۔جنت اور اس کی نعمتیں تفصیل سے جاننے کے بعد شداد نے خدائی دعویٰ کرتے ہوئے کہا''ایسی جنت تو میںبھی بنا سکتا ہوں۔''حضرت ہود ؑ نے شداد کواس خدائی دعویٰ کے ساتھ کفر اور شرک کرنے سے بہت روکامگر شداد اپنی ضد پر اڑا رہا اورآخرت میں ملنے والی جنت کی طرح زمین پر جنت بنانے کا اٹل فیصلہ کرلیا۔شیطان کے بہکاوے میں وہ یہ بات بھول گیا کہ وہ دنیا جہان کی نعمتیں بھی اکٹھی کرلے تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی جنت کی ایک نعمت کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتا۔
بادشاہ شداد نے جنت بنانے کے لئے اپنی سلطنت کے جمع کردہ خزانوں کے ڈھیر کے علاوہ مزید خزانہ اکٹھا کرنے کے لئے اپنے بھانجے ''ضحاک ''کو پیغام بھیجا جواس وقت ایران کاحاکم تھا۔ضحاک نے بھی ڈھیر سارا سونا اور چاندی اکٹھا کرکے شداد کو بھجوا دیئے ۔شداد نے مزید سونا چاندی،ہیرے،جواہرات اکٹھے کرنے کے لئے اپنے کارندے سلطنت بھر میں بھیج دیئے جنھوں نے بڑی مقدار میں سونا اور چاندی جمع کرکے اس کے آگے پیش کردیا۔جب سونا ،چاندی،ہیرے اور جواہرات کے ڈھیر لگ گئے تو تو شداد نے جنت بنانے کے لئے احقاف(اونچے اور لمبے ٹیلوں کی سرزمین) کے ایک مقام ''ارم'' اور بعض روایات کے مطابق ملک شام میں ایک صحت افزاء مقام پر 20 کوس لمبی اور چوڑی مربع جگہ مختص کی اور تعمیرات سے متعلق تمام ماہرین کو ہوبہو جنت جیسا شہربنانے کا کام سونپ دیا۔ماہرین تعمیرات نے جنت نما شہرکے اطراف میںایک مضبوط ترین اور بلند و بالا فصیل تعمیر کی اورشہر کی بنیادوں میں سنگ سلیمانی بھر دیا۔ بعد میں اس شہر میں دودھ اورشہدکی نہریں بنائی گئیں ۔ شہر کے وسط میں ایک ایسی نہر بھی بنائی گئی جس میں سنگریزوں (چھوٹے پتھروں) کی بجائے ہیرے جواہرات ان میں بہائے گئے۔ بلند ستونوں پرسونے اورچاندی کی اینٹوں سے بنے محلات تعمیر کئے گئے اور دیواروں پر بیش قیمت جواہرات سجائے گئے۔محلات کے گرد سونے اور چاندی سے ہزاروں کمرے بھی تعمیر کئے گئے اورہر کمرے کویاقوت اور ہیرے جواہرات سے سجایا گیا۔ شہر بھر میں سونے سے بنے درخت لگائے گئے جن کے خوشوں میںمشک اور عنبر بھردیا گیا تاکہ جب ہوا چلے توہر طرف خوشبو پھیل جائے۔ان درختوں کی شاخیں اور پتے زمرد کے بنائے گئے۔درختوں پر موتی،یاقوت اور دوسرے جواہرات کے پھل بنواکر ان پر ٹانک دیے گئے۔ دنیا بھر سے نایاب درخت،پودے اور پھول بھی لگائے گئے۔زمین پر مخمل اور قالین بچھادیئے گئے۔ جنت نماشہر میں خوبصورت اور نوجوان عورتوں کوحوریں بناکررکھا گیا۔شداد کی بنائی ہوئی جنت میںسونا ،چاندی،ہیرے،جواہرات سے بھرے خزانے کی جھلک اس قدر نمایاں تھی کہ جب سورج نکلتا تو اس کی روشنی میں پورا شہر چمک اٹھتااورسونے اور چاندی کی بنے محلات پرانسان کی نگاہ نہیں ٹھہرپاتی تھی۔ جنت نما اس شہر کو مکمل ہونے میں تین سو سال یا پانچ سو سال لگ گئے۔جب شہر مکمل تیار ہوگیا تو شداد کواطلاع کردی گئی کہ جنت تیار ہے ۔
شداد غرور اور تکبر کے ساتھ اپنا بہت بڑالشکرلے کر اپنی بنائی ہوئی جنت کی جانب روانہ ہوگیا۔جب وہ اپنی بنائی ہوئی جنت کے دروازے کے پاس پہنچا تو سامنے ایک اجنبی کو دیکھا۔شداد نے تکبر سے پوچھا ''کون ہو تم اور میرے راستے میں کھڑے ہونے کی جرات کیوں کی؟''اجنبی بولا'' میںموت کا فرشتہ( ملک الموت) ہوں اورتمھاری روح قبض کرنے آیا ہوں۔'' یہ سن کر شداد کانپ گیا اور گڑگڑاتے ہوئے اپنی بنائی ہوئی جنت کو صرف ایک مرتبہ دیکھنے کی مہلت مانگی لیکن موت کے فرشتے نے اسے مہلت نہ دی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا۔ شداد کا ایک پاوں زمین پر اور دوسرا گھوڑے کی رکاب پر تھا کہ موت کے فرشتہ نے اس کی جان قبض کرلی۔خدائی دعویٰ کرنے ولاشداد اپنا دوسرا قدم زمین پر نہ رکھ پایا اورجو جنت اس نے زمین پربنائی تھی اس کو ایک نگاہ بھی نہ دیکھ پایا اور جہنم واصل ہوگیا۔بعد میں حضرت جبرائیل امین نے چیخ ماری اور شداد کی بنائی ہوئی جنت ،سونے چاندی کے بنے اونچے اونچے محلات سمیت زمین میں دھنس گئی