اشعار کی صحت ۔۔۔9 | Hayat Abdullah

سعداللہ جان برق نے 11 دسمبر کے کالم میں یہ شعر تحریر کیا ہے۔
            گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف٬ اور ثمر بھی
            اے خانہ بر انداز چمن ”کچھ تو ادھر بھی“
محمد رفیع سودا کے اس شعر کا پہلا مصرع اسی غلط انداز میں مشہور ہو گیا ہے۔بعض لوگ پہلے مصرعے میں لفظ" اور "کی جگہ "بلکہ" لگا دیتے ہیں مگر حقیقت اس کے بھی برعکس ہے” کلیاتِ سودا“ جلد اوّل مُرتّبہ پروفیسر ڈاکٹر محمد حسن کے مطابق درست مصرع یوں ہے۔
            گُل پھینکے ہیں عالَم کی طرف بلکہ ثمر بھی
11 دسمبر کے کالم "دوسرا رخ" میں رضا علی عابدی کو” مومن“ کا شعر اس طرح یاد آیا ہے۔
            مومن آیا ہے بزم میں ان کی
            صحبتِ آدمی مبارک ہو
حکیم مومن خان مومن نے شعر کا پہلا مصرع اس طرح ہرگز نہیں کہا” کلیاتِ مومن“ کے مطابق درست مصرع اس طرح ہے۔
           مومن آیا ہے بزم میں تیری
ہارون الرشید 15 دسمبر کے کالم میں لکھتے ہیں "بیسویں صدی کے علمی مجدّد نے یہ کہا تھا
            توفیق عمل مانگ نیاگان کہن سے
            شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدار "
جب کہ بیسویں صدی کے علمی مجدّد نے اپنی کتاب "ارمغان حجاز " کی نظم” بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو“میں یہ شعر مختلف انداز میں کہا ہے۔
           اخلاصِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
           ” شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را “
دراصل اس شعر کا دوسرا مصرع ہلالی چغتائی کا ہے جسے علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے اس شعر میں استعمال کیا ہے۔
ہارون الرشید نے دوسرا شعر یوں لکھا ہے۔
            مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں
            جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
” بانگِ درا“ کے مطابق اس شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ "ان" کی جگہ "اس" ہے۔
اگلا شعر میر تقی میر کا یوں لکھا گیا ہے۔
           مصرعہ کھبو کھبو کوئی موزوں کروں ہوں میں
           کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
ہارون الرّشید نے لفظ” کبھو“ کو” کھبو“ لکھ دیا ہے مگر یہ شاید کمپوزنگ کی غلطی ہے۔اصل سقم یہ ہے کہ میر تقی میر نے پہلے مصرعے میں” کبھو“ کی بجائے” کوئی“ کی تکرار کی  ہے یعنی۔
           مصرع کوئی کوئی کبھو موزوں کروں ہوں میں
16 دسمبر کے کالم میں سعداللہ جان برق نے علامہ محمد اقبالؒ کی نظم” شکوہ“ کے اس شعر کو نہ صرف الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے بلکہ مصرعوں میں تحریف بھی کر دی ہے۔
            ترے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
            بندہ وآقا ومحتاج وغنی ایک ہوئے
"بانگ درا" میں شعر اس طرح موجود ہے۔
           بندہ وصاحب ومحتاج وغنی ایک ہوئے
           تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
سعداللہ جان برق ان اشعار کے ساتھ ساتھ امیر خسرو اور فیض احمد فیض کے اشعار کی بھی اصلاح کر لیں تو نوازش ہو گی۔
قیّوم نظامی نے 19 دسمبر کے کالم کے آخر میں علامہ محمد اقبالؒ اور جگر مراد آبادی کا ایک ایک شعر ملا کر لکھ دیا ہے، جس سے یہ غلط فہمی بہ ہر حال پیدا ہو سکتی ہے کہ یہ دونوں اشعار کسی ایک ہی شاعر کے ہیں۔جگر مراد آبادی کا شعر اس طرح کالم میں موجود ہے۔
           یہ روز وشب یہ صبح وشام یہ بستی یہ ویرانہ
            سبھی بیدار ہیں انسان اگر بیدار ہو جائیں
جگر مراد آبادی کی کتاب” آتش گل“ کے مطابق "ہو جائیں" اس غزل کی ردیف ہے ہی نہیں۔آپ کی ذوق طبع کے لیے اس غزل کا مطلع اور مقطع دونوں حاضر ہیں۔
            یہ مصرع کاش نقشِ ہر دَر ودیوار ہو جائے
            جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیّار ہو جائے
           یہ روز وشب' یہ صبح وشام' یہ بستی' یہ ویرانہ
           سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے
22 دسمبر کے کالم کے آخر میں ہارون الرشید رقم طراز ہیں۔
            ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام 
             سخت کوشی سے وہ جامِ زندگانی انگبیں
” بال جبریل“ کی نظم” نصیحت“ میں دوسرا مصرع اس طرح ہے۔
           سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
25 دسمبر کے "کالم آرائی" میں ایم ابراہیم خان نے اس شعر کے مصرعوں کی نہ صرف ترتیب میں گڑبڑ کر دی ہے بلکہ مصرعے بھی غلط لکھنے کے ساتھ ساتھ  ردیف قافیے میں بھی تحریف کر ڈالی ہے۔
            سب کا تو گریباں سی ڈالا، اپنا ہی گریباں سی نہ سکے
           سب کا تو مداوا کر ڈالا، اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
اسرارالحق مجاز کی کتاب "سازِ نو" اور "کلیات مجاز" میں یہ شعر اس طرح موجود ہے۔
           سب کا تو مداوا کر ڈالا، اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
           سب کے تو گریباں سی ڈالے، اپنا ہی گریباں بھول گئے
26 دسمبر کے” ادراک“ میں احسان الرّحمان لکھتے ہیں۔
            جنوں کا نام خرد پڑ گیا خرد کا جنوں
            جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
مولانا حسرت موہانی کا پہلا مصرع غلط لکھ دیا گیا ہے، دیوانِ حسرت میں یہ مصرع یوں ہے۔
            خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
پروفیسر سیّد اسرار بخاری نے 27 دسمبر کے” سر رہ گزر“ میں مرزا غالب کے ایک مصرعے پر بڑا ہی ظلم کر دیا ہے ملاحظہ کیجیے! 
            نے باگ پر ہے ہاتھ نہ پاؤں رکاب میں
مرزا غالب کا یہ مصرع مکمل شعر کے ساتھ اس طرح ہے۔
          رَو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
          نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
29 دسمبر کے” تجاہل عادلانہ“ کے آخر میں عابد قریشی نے جو شعر تحریر کیا ہے اس میں بہت ساری زیادتیاں روا رکھی گئی ہیں۔پہلا ستم تو یہ کہ شعر غلط لکھا گیا ہے۔دوسرا ظلم یہ کہ شعر کے غلط مصرعے ہی کو شعر کا عنوان بھی بنا دیا گیا ہے۔تیسری غلطی یہ کہ شعر کو اس کے اصل شاعر کی بجائے ناصر کاظمی سے منسوب کر دیا گیا ہے۔
            وقت رخصت وہ چُپ رہے ناصر
            اور آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
یہ شعر سید عابد علی عابدؔ کی غزل کا مقطع ہے اور ان کی کتاب” شبِ نگاربنداں“ کے صفحہ 53 پر اس طرح مرقوم ہے۔
            دمِ رخصت وہ چُپ رہے عابدؔ
            آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
” سرراہے" کے مدیر نے 30 دسمبر کے کالم میں علامہ محمد اقبالؒ کے اس شعر کا دوسرا مصرع غلط تحریر کر دیا ہے۔
            باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
            سو بار لے چکا ہے تو امتحاں ہمارا
"بانگ درا" کی نظم "ترانہ ء ملّی" میں مصرع اس طرح موجود ہے۔
            سو بار کر چکا ہے تُو امتحاں ہمارا
3 جنوری کے” ہائیڈ پارک“ میں وجاہت علی خان نے علامہ محمد اقبالؒ کے حوالے سے یہ شعر لکھ دیا ہے۔
            خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
           نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
شعر تو درست لکھا گیا ہے مگر استدعا فقط اتنی ہے کہ یہ شعر علامہ محمد اقبالؒ کا نہیں بلکہ مولانا ظفر علی خان کا ہے اور اُن کتاب” بہارستان“ میں موجود ہے۔یہ کتاب اردو اکیڈمی پنجاب نے 1937 ء میں شائع کی تھی۔
ایم ابراہیم خان نے 4 جنوری کے کالم میں علامہ محمد اقبالؒ کے اس شعر کے دونوں مصرعے غلط لکھ دیے ہیں۔
           اک دور تھا کہ خدمتِ استاد کے عوض
            جی چاہتا تھا ہدیہ ء دل پیش کیجیے
” بانگ درا“ میں یہ شعر اس طرح موجود ہے۔
            تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوض
           دل چاہتا تھا ہدیہ ء دل پیش کیجیے! 
5 جنوری کے” حرمت حرف“ میں شوکت علی شاہ نے میر تقی میر کے اس شعر کا دوسرا مصرع بے وزن اور بے معنی کر دیا ہے۔
            لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
            آفاق کی اس کاریگر شیشہ گری کا
پتا نہیں دوسرے مصرعے میں کاریگر کہاں سے گُھس آیا ہے؟ درست مصرع اس طرح ہے۔
           آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
8 جنوری کے کالم” بیٹھک“ میں سعید آسی نے یہ شعر تحریر کیا ہے۔
            یہ مجھے چین کیوں نہیں آتا
           ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا؟
جون ایلیا کے اس شعر کا پہلا مصرع غلط لکھ دیا گیا ہے۔جون ایلیا کی کتاب” شاید“ کے مطابق ملاحظہ کیجیے درست مصرع۔
           یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا؟ 
عمر قاضی نے 9 جنوری کے” لالہ صحرائی“ میں مرزا غالب کا شعر لکھا ہے اور اس شعر کے پہلے مصرعے میں خواہ مخواہ” دل“ گھسیڑ دیا ہے، جس سے مصرع بے وزن ہو گیا ہے۔بے موقع جگہ پر دل لگا دینے کا نتیجہ یہی تو نکلتا ہے آپ خود دیکھ لیجیے!
            سنبھلنے دے مجھے اے ناامیدی دل کیا قیامت ہے
            کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
پہلے مصرعے سے” دل“ نکال لیں تو مصرع درست ہو سکتا ہے۔
ہارون الرشید نے 14 جنوری کے کالم کے شروع اور آخر میں علامہ محمد اقبالؒ کے دو اشعار تحریر کیے ہیں جن میں سے ایک شعر اس طرح لکھا ہے۔
            اپنی فطرت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
            آج تک فیصلہ ء نفع و ضرر کر نہ سکا
ہارون الرشید صاحب سے گزارش ہے کہ” ضرب کلیم“ کے اس شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ” فطرت“ کی جگہ” حکمت “موجود ہے۔
ہارون الرّشید نے ہی اپنے ٹی وی پروگرام میں اس شعر کا پہلا مصرع غلط پڑھ دیا۔
            اسی باعث تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے
            اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کارواں ہو کر
خواجہ محمد وزیر کی کتاب” دفترِ فصاحت“ میں مصرع اس طرح موجود ہے۔
           اسی خاطر تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے
15 جنوری کے کالم” امر اجالا“ میں اصغر علی شاہ نے بقول شاعر کہ کر مظفر رزمی کے ضرب المثل شعر کے پہلے مصرعے میں فاش غلطی کر دی ہے۔
            یہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
           لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
مظفر رزمی کی کتاب کا نام ہی” لمحوں کی خطا“ ہے اس کے صفحہ نمبر 67 پر مصرع اس طرح موجود ہے۔
           یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے