ریل گاڑی انیسویں صدی کی حیرت انگیز ایجاد ہے۔ ہوائی جہاز اور ریل گاڑی ایجاد ہونے کے بعد سفر کرنے میں آسانی پیدا ہو گئی۔ مہینوں کا سفر گھنٹوں اور دنوں میں ہونے لگا۔ ریل گاڑی زمینی سفر میں سب سے تیز رفتار سواری ہے 1801ء میں پہلی بار ریل گاڑی لندن میں چلائی گئی جسے گھوڑے کھینچتے تھے۔ واٹ ٹری وی تھک اور دیگر سائنسدانوں کی کوششوں سے بھاپ کا پہلا انجن تیار ہونے پر 1804ء میں پہلی میکنیکل ٹرین چلائی گئی 1805ء میں جارج اسٹیفن نے ایسا انجن بنایا، جس کی رفتار پندرہ میل فی گھنٹہ تھی۔ انگلینڈ میں 1825ء میں پہلی ریلوے لائن بچھائی گئی تو جارج اسٹیفن کا بنایا ہوا یہ انجن لگایا گیا۔ اس انجن کا نام راکٹ تھا جارج اسٹیفن کو فادر آف ریلوے کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں ریلوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ انجنوں اور گاڑیوں کی ساخت اور رفتار انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں۔ انجنوں نے بہت ترقی کی ہے۔ جدید قسم کے انجن بنائے گئے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ ریل گاڑیاں امریکہ میں چلتی ہیں۔ آج کل ریل گاڑیوں کے ڈبے مختلف سہولیات سے آراستہ ہوتے ہیں۔ امریکہ میں پہلی ریل گاڑی 1830ء میں چلی تھی۔ اس کا نام دی بیٹ فرینڈ تھا۔ دنیا کی سب سے پہلی مسافر ریل گاڑی 27 ستمبر 1825ء کو برطانیہ کے شہر سٹالن سے ڈارلنگٹن تک چلی۔ دنیا کی سب سے لمبی ریل گاڑی امریکہ کی ہے۔ دنیا کی تیز رفتار ریل گاڑی شنگھائی میگوچین کی ہے۔ یہ ریل گاڑی 26 جون 2017ء کو بیجنگ اور شنگھائی کے درمیان اپنے پہلے سفر پر روانہ ہوئی تھی۔ دوسری تیز رفتار ریل گاڑی اٹلی کی اور تیسری تیز رفتار ٹرین فرانس کی ہے۔ فرانس کا مصروف ترین ریلوے اسٹیشن Gare due nord ہے۔ یہ یورپ کا بھی مصروف ترین ریلوے اسٹیشن ہے۔ یورپ کا دوسرا بڑا ریلوے اسٹیشن سپین میں ہے۔ بلٹ ٹرین Hideo Shimx نے ایجاد کیا۔ دنیا کی تیز رفتار بلٹ ٹرین جاپان کی ہے۔ اس کی رفتار 249 میل فی گھنٹہ ہے۔ دنیا کی سب سے لمبی کار کو ٹرین یونین پیسیفک ٹرین امریکہ کی ہے۔ دنیا کا مصروف ترین ریلوے اسٹیشن Station Shinjulkn ٹوکیو جاپان میں ہے اس کے 36 پلیٹ فارم ہیں۔ اس اسٹیشن کا افتتاح 1825ء میں ہوا تھا۔ دنیا کا دوسرا مصروف ترین ریلوے اسٹیشن Shnby station بھی ٹوکیو جاپان میں ہے۔ افریقہ میں سب سے لمبی ٹرین زمبابوے میں چلتی ہے۔ افریقہ کا سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن جو ہنسبرگ پارک اسٹیشن جنوبی افریقہ میں ہے۔ چین کا سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن بیجنگ ریلوے اسٹیشن ہے۔ یہ 1959ء میں قائم ہوا تھا۔ دنیا کا سب سے بڑا سب وے سسٹم سبیؤل سب وے جنوبی کوریا میں ہے۔ دنیا کی سب سے لمبی ریلوے لائن ٹرانس سائبرینا ریلوے ماسکو سے ولادی واسک تک 6 ہزار 152 میل لمبی ہے ٹرانس سائبرین ریلوے 1916ء سے کام کر رہی ہے۔ مسافروں کے لئے یہ دنیا کا طویل ترین ریل کا سفر ہے۔ دنیا کی سب سے زیادہ جدید اور تیز ترین ریل گاڑیاں تیار کرنے والی سب سے بڑی چینی کمپنی سی آر سی جی سی ہے۔ میٹرو ٹرین پہلی مرتبہ 1863ء میں چلی۔ 23 فروری 1983ء کو لندن میں ریلوے کی تاریخ میں پہلی بار این ڈنٹر نامی 23 سالہ خاتون نے پسنجر ٹرین چلا کر پہلی خاتون ڈرائیور ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ دنیا کا سب سے بلند ریلوے اسٹیشن بولیویا کا کولڈ ور اسٹیشن ہے جو سطح سمندر سے 15 ہزار فٹ بلند ہے دنیا کا سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن گرانڈ سنٹرل ٹرمینل نیو یارک پارک ہے۔ دنیا کا سب سے لمبا ریلوے پلیٹ فارم گورکھ پوپلیٹ نامی مغربی بنگال انڈیا میں ہے۔ برصغیر میں کان مہترزئی (بلوچستان) سب سے اونچا ریلوے اسٹیشن ہے پاکستان کا سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن لاہور ہے۔ پاکستان کا سب سے طویل پلیٹ فارم کوٹری کا پلیٹ فارم ہے۔ برصغیر میں سب سے پہلے ہندوستان میں 1845ء میں کلکتہ سے رانی گنج بمبئی سے کلیان اور مدراس سے ایکو نام تک ریل کی پٹریاں بچھائی گئیں۔ پاکستان میں پہلی ریلوے لائن 1860ء میں کراچی سے کوٹری تک تقریباً 150 کلومیٹر پٹڑی پر مشتمل بچھائی گئی۔ پاکستان ریلوے ٹریک کی کل لمبائی 8775 کلومیٹر ہے جبکہ سٹیشنوں کی تعداد سات سو سینتیس ہے۔
پاکستان میں سب سے پہلے الیکٹرک ٹرین خانیوال سے لاہور تک 1970ء میں چلائی گئی پاکستان میں سب سے پہلے ڈیزل انجن کا استعمال 1952ء میں شروع ہوا۔ دنیا کی سب سے لمبی ا ور سب سے گہری ریلوے سرنگ گوٹ پارٹ ریلوے لنک سوئٹزر لینڈ میں واقع ہے۔ اس کی لمبائی 57 کلومیٹر ہے۔
پاکستان ریلوے جس کا سابقہ نام 1947ء سے
فروری 1961ء تک شمال مغربی ریلوے اور فروری 1961ء سے مئی 1974ء تک پاکستان مغربی ریلوے تھا، حکومت پاکستان کا ایک محکمہ ہے جو پاکستان میں ریلوے خدمات فراہم کرتا ہے۔ اس کا صدر دفتر لاہور میں ہے اور یہ وزارت ریلوے کے تحت کام کرتا ہے۔ پاکستان ریلویز پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہم ہے جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر آمد و رفت کی سستی تیز رفتار اور آرام دہ سہولیات فراہم کرتا ہے -
پاکستان ریلوے کو ملکی ٹرانسپورٹ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے یہ محکمہ اپنے اندر عروج ہوں زوال کال اور پھر استحکام کی تاریخ لیے ٹریک پر چلے جا رہا ہے ہے ہےملکی ٹرانسپورٹ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، یہ محکمہ اپنے اندر عروج و زوال اور پھر استحکام کی تاریخ لیے ٹریک پر چلے جا رہا ہے، ایک اندازے کے مطابق ریل کے ذریعے سالانہ کروڑوں افراد سفر کرتے ہیں اور مسافروں کے ساتھ ساتھ مال برداری کے لیے بھی اس محکمے کی خدمات گراں قدر ہیں۔
یہ محکمہ ملک کے اُن چند بڑے محکموں میں شامل ہے جس کے ملازمین کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے اور 75 ہزار سے زائد ملازمین دن رات خدمات انجام دے کر ریل کا پہیہ چلا رہے ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ یہ محکمہ 75 ہزار سے زائد خاندانوں کی کفالت کر رہا ہے تو غلط نہ ہوگا
لاہور کا ریلوے سٹیشن 1861میں تعمیر ہوا تھا اور سن دو ہزار گیارہ میں اس کی ایک سو پچاسویں سالگرہ منائی گئی جنوبی ایشیا میں ریل کا آغاز بھی لاہور کے ریلوے سٹیشن کی تعمیر سے ہواتھا -
لاہور کا ریلوے اسٹیشن ایک قلعہ نما عمارت دکھائی دیتا ہےکیونکہ برطانوی ماہر تعیمر ولیم برنٹن نے اس کا نقشہ بناتے وقت اس بات کو بھی پیش نظر رکھا تھا کہ ضرورت پڑنے پراسے دشمنوں کے حملے کے خلاف ایک قلعے کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکے۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ 1857کے خوں ریز واقعات کےفوری بعد ہی لاہور کا ریلوے اسٹیشن بننا شروع ہوگیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب انگریزحکمرانوں کو ہردم یہ خوف رہتا تھا کہ کہیں پھر سے کوئی بغاوت نہ ہوجائے۔
ہندوستان میں بغاوت تو نہ ہوئی مگر لاہور کا ریلوے اسٹیشن 1878 میں افغانوں کے ساتھ انگریزوں کی دوسری لڑائی کے دوران فوجی دستے اور جنگی ساز و سامان میدانِ جنگ بھجوانے میں ضرور کام آٰیا۔ روزانہ درجنوں ٹرینیں لاہور سے اسلحہ سمیت فوجیوں کو لے کر روانہ ہوا کرتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور کے ریلوے اسٹیشن کی ایک ثقافتی پہچان بننا شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ وہ اس قدر مضبوط ہوگئی کہ اب کسی کے لیے شاید ہی اس بات کی اہمیت ہو کہ برطانوی حکمرانوں نے بنیادی طور پر اس تنصیب کی تعمیرفوجی مقصد کے لیے کی تھی۔
پاکستان کے بانی محمد علی جناح جب 1940کے تاریخی جلسے میں شرکت کے لیے لاہور پہنچے تو اسی ریلوے اسٹیشن پر سب سے پہلے اُن کا عظیم الشّان استقبال ہوا۔ لیکن1947کی قتل وغارت کا بھی یہ ریلوے اسٹیشن شاہد ہے جب ریل کے ڈبوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔
قیام پاکستان کے بعد ملک کی سیاست سے بھی اس ریلوے اسٹیشن کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ ساٹھ کے عشرے میں اس دور کے صدر ایوب خان نے اپنے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو عہدے سے الگ کیا تو راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشن پر بھٹو کو الوداع کہنے والے محض چند افراد تھے لیکن لاہور ریلوے اسٹیشن پر ذوالفقار علی بھٹو کا استقبال کرنے ہزاروں افراد پہنچے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ واقعہ آگے چل کر پاکستان کی پیپلز پارٹی کے قیام کی ایک اہم وجہ بھی بنا۔
مضبوط ترین ثقافتی پہچان رکھنے والے ملک پاکستان کا ریلوے آج کل سنگین مالی مسائل میں گھِرا ہے۔
پاکستان ریلویز 250 کے قریب ٹرینیں چلا رہا ہے جن میں سے محض چالیس ایسی ہیں جو ریلوے کی کُل آمدنی کا اسّی فیصد کماتی ہیں جبکہ باقی دو سو سے زیادہ ٹرینیں خسارے میں چل رہی ہیں۔
دنیا کے بیشتر ملکوں میں ریلوے کا نظام حکومت کی امداد کے سہارے ہی چلتا ہے اور اگر پاکستان میں ریلوے کے محکمے کو غیر منافع بخش ٹرینیں بند نہیں کرنے دی جائیں گی تو پھر مالی وسائل کے لئے یہ ادارہ حکومت کی مزید امداد ہی کا محتاج رہے گا -
ریلوے کے ترجمان کہتے ہیں کہ تیل کی ایک ٹرین نوے کروڑ روپے سالانہ کما لیتی ہے۔ جب کہ غیرمنافع بخش ایک سو دو ٹرینوں کی کل آمدن پچھتر کروڑ روپے بنتی ہے۔
آجکل پاکستان میں ریلوے ٹریک کی لمبائی ساڑھے آٹھ ہزار کلومیٹر ہے اور گزرے ہوئے ستر سالوں میں اس میں بجائے اضافے کے کمی دیکھنے میں آئی ہے -
ہم نے اس میں جو اضافہ کیا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ مردان سے چارسدہ تک ایک چھوٹی سی لائن بنائی ہے اور پھر کشمور میں ایک لائن ہے جو آگے ڈیرہ غازی خان اور جیکب آباد کو ملاتی ہے۔ اس کے علاوہ کھوکھراپار میں ایک ریلوے لائن کو میٹر گریڈ سے براڈ گریڈ میں تبدیل کیا گیا ہے۔‘
دنیا میں جہاں ٹرینوں کی رفتار 300 کلومیٹر فی گھنٹہ سے تجاوز کر چکی ہے، ایم ایل ون پر ریل گاڑی بمشکل 100 کلومیٹر فی گھنٹہ تک جا سکتی ہے اور وہ بھی کہیں کہیں۔ اس کی رفتار اوسط 65 کلومیٹر اور کہیں 15 کلو میٹر فی گھنٹہ تک گر جاتی ہے۔
ایم ایل ون منصوبے کو پاکستان کے لیے ایک 'گیم چینجر' تصور کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل پر کراچی اور لاہور کے درمیان فاصلہ صرف 10 گھنٹے میں طے ہو گا جبکہ لاہور سے اسلام آباد پہنچنے میں صرف ڈھائی گھنٹے لگیں گے۔
اسی طرح بہت پرانا ٹریک جو کہ قیام پاکستان سے بھی پہلے بنا ہے جو سمہ سٹہ سے لے کر منڈی صادق گنج پاکستان کے آخری اسٹیشن امروکہ تک تھا یہ ریل گاڑی کراچی سے چلتی تھی بہاولپور پہنچ کر پھر بہاول نگر - اور وہاں سے فورٹ عباس اور منڈی صادق گنج جاتی تھی - اسی راستے میں تمام اسٹیشن ہوتے تھے جن کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں -
لال سہانرا ، اسرانی ، خیر پور ٹامیوالی , شیخ واہن۔ قائم پور ، حاصل پور ، بخشن خان ، چشتیاں ، بہاولنگر سے پاکستان اور بھارت کے بارڈر پر آخری اسٹیشن امروکہ تک جاتی تھی - بھارت میں آگے دہلی جانے کے لیے بھی یہی ٹریک استعمال ہوتا تھا - قائد اعظم محمد علی جناح بھی کئی بار اسی ٹریک سے سفر کرتے ہوئے دہلی جاتے تھے -
ایک بار تو انھوں نے ایک رات امروکہ اسٹیشن میں قیام بھی کیا تھا - اسی ٹریک پر سمہ سٹہ سے بہاولنگر کے لیے ہر گھنٹہ بعد ایک ٹرین نکلتی تھی - اور یوں 24 گھنٹے میں 24 گاڑیاں مسافروں کو لے کر انھیں منزل مقصود تک لے جاتی تھیں - ان ریلوے اسٹیشنز پر خوب رونق اور چہل پہل ہوا کرتی تھی - آج بہاولپور سے لے کر بہاولنگر ، فورٹ عباس سے منڈی صادق گنج تک اسٹیشن بھوت بنگلہ بنے ہوئے ہیں -
حکومت پاکستان کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اس ٹریک کو چلا کر چولستانی عوام کی خوشیاں کا سامان کرنا چاہیے - اور تمام تر سہولیات فراہم کر کے انکے ساتھ خیر خواہی کا ثبوت دینا چاہیے
ریلوے سفر کا ایک باکفایت ذریعہ ہے مگر حکومتی عدم توجہی کے سبب زبوں حالی کا شکار ہے - ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں یہ ایک منافع بخش ادارہ ہے مگر ہمارے ہاں یہ گھاٹے کا سودا ہے - یاد پڑتا ہے کہ ایک کے پی کے سے تعلق رکھنے والے ایک سیاست دان اور سابقہ وزیر ریلوے نے کہا تھا یہ محمکہ نہیں بھی ہو گا تب بھی میں اس کا وزیر رہوں گا - اسی بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے حکمران اس کی بحالی و ارتقاء میں کس حد تک سنجیدہ ہیں -
اگر دیانت داری اور جذبے سے کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے جدید خطوط پر استوار نہ کر سکیں - لگن محبت اور دیانت داری سے کام کیا جائے تو ہم پاکستان ریلوے کا سنہری ماضی واپس لا سکتے ہیں