قسطنطنیہ کی فتح اوراستقامت کا کوہِ گراں سلطان محمد فاتح | Hafiz Bilal Bashir

پانچ جنوری 2021 اسلامی مہینے کے اعتبار سے 20 جمادی الاولی کا دن ہے 20جمادی الاولیٰ 857ھ کو مسلمانوں کو ایک عظیم الشان فتح ہوئی جس کی خوشخبری صدیوں پہلے تاجدار کائنات محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے دی تھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی تاجدار کائنات محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی اس مبارک حدیث پاک کو پورا کرنے اور اس عظیم فتح کو حاصل کرنے کے لیے مختلف ادوار میں معرکے ہوتے رہے۔  لیکن یہ فتح ایک نو جوان سلطان کا مقدر تھی جو ارادہ پختگی، عزم و ہمت، جرات و بہادری اور استقلال کا پہاڑ تھا۔ 
مسلم امہ کے نوجوانوں کے لیے سلطان محمد فاتح کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔  کیا آج کے معاشرے میں ہم سوچ بھی سکتے ہیں کہ ایک گیارہ سال کا نوجوان بچہ ایک بہترین سپہ سالار بھی تھا اور مسلمانوں کا سپاہی بھی اور ایک صوبے کا گورنر بھی، یہ مسلمانوں کا وہ عظیم الشان دور تھا کہ بچہ جب پیدا ہوتا تھا تو اس کی ثقافت، نظریہ اس کو منتقل کرنا شروع کر دیا جاتا تھا۔ جب بچہ بولتا تھا تو وہ اپنی ثقافت اور نظریات کا علمبردار بن کر بولتا ، سلطان محمد فاتح کی عمر اس وقت صرف گیارہ برس تھی جب ان کے والد سلطان مراد نے اُن کو اماسیا ریاست میں گورنر اور سپہ سالار بنا کر بھیجا، محمد جب 19 برس کے ہوئے تو خلافت عثمانیہ کا تخت سنبھالا اس وقت قسطنطنیہ کا بادشاہ قسطنطین تھا۔ قسطنطنیہ یعنی آج کا استنبول ایک نہایت اہم شہر تها. ارتغل کی اولاد خلافت عثمانیہ کے یہ سلطان فتوحات پر فتوحات کر رہے تھے لیکن یورپ کی طرف ابھی تک قدم نہیں رکھا تھا کیوں کہ یورپ کا دروازہ یہ ہی شہر تھا۔ لیکن یہ شہر فتح کرنا بے حد مشکل تها۔  اس شہر کی فصیلیں بہت مضبوط تهیں۔ اس کے صرف ایک طرف خشکی اور باقی جانب سمندر ہونے کی وجہ سے بهی مشکلات تهیں۔ کئی دفعہ اس شہر کو فتح کرنے کے لیے لشکروں کے لشکر آئے اور اس شہر کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس چلے گئے. قسطنطنیہ کے بارے میں مشہور ہو گیا کہ یہ شہر فتح ہی نہیں ہو سکتا۔ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی زندگی میں فرمایا تها؛

"لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ فَلَنِعْمَ الْاَمِيرُ اَمِيرُهَا وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ 

(مسند امام احمد بن حنبل،  جلد 6 صفحہ 225)
ترجمہ: 
"یقینا تم قسطنطنیہ فتح کر لو گے، وہ امیر بهی کیا باکمال ہو گا، وہ لشکر بهی کیا باکمال ہوگا".
اس حدیث رسول اللّٰہ کی وجہ سے ہر مسلمان بادشاہ، خلیفہ، سلطان نے کوشش کی کہ وہ اس حدیث پاک کا مصداق ٹھرایا جائے۔ 
بازنطینی سلطنت کی تاریخ میں قسطنطنیہ شہر پر کم از کم 24 دفعہ حملہ ہوا۔ سب سے آخری حملہ مسلمانوں کے عظیم الشان سپہ سالار سلطان محمد فاتح نے کیا اور اس نے ہی یہ فتح حاصل کی ۔ درحقیقت سلطان محمد نے تخت نشین ہوتے ہی قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں تهیں. یہ ان کا مقصد بن چکا تها. سلطان محمد نے پہلے تمام باقی دشمنوں سے خطرہ ختم کیا. وہ ایسے کہ انہوں نے امیرِ کرمانیہ سے صلح کر لی. چند بغاوتیں تهیں، ان کو ختم کیا اور تین سال کے معاہدے پر ہونیاڈے سے بهی صلح کر لی. یوں سلطان محمد کو اطمینان ہو گیا کہ وہ سکون سے قسطنطنیہ پر توجہ دے سکے گا.
پہلا کام سلطان محمد نے یہ کیا کہ قسطنطنیہ سے تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر ایک قلعہ تعمیر کروانا شروع کیا. اس قلعے کی تعمیر کے دوران ترکوں کی کئی چهوٹی لڑائیاں قسطنطین کے سپاہیوں کے ساتھ ہوئیں. لیکن یہ بنتا رہا. یہ قلعہ 1452ء کے موسمِ سرما سے پہلے تیار ہو گیا. باسفورس اب عثمانیوں کے قبضے میں تھا. کوئی جہاز سلطان محمد کی اجازت کے بغیر نہیں گزر سکتا تھا. اب سلطان محمد نے باقی تیاریوں پر توجہ دی.
ادرنہ میں سلطان محمد نے ڈیڑھ لاکھ فوج اکٹهی کی. لیکن صرف فوج کی تعداد ہی اس شہر کو حاصل نہیں کر سکتی تهی.  چند مزید انتظامات بهی ضروری تھے. یہ شہر مثلث نما تھا. جس کے دو اطراف سمندر تھا. تو بری یعنی زمینی افواج صرف ایک طرف سے حملہ کر سکتی تھیں. لیکن یہ حصہ کافی مضبوط تھا. یکے بعد دیگرے تین دیواریں اس حصے کی حفاظت کرتی تھیں. اندرونی دو دیواریں حد درجہ مضبوط تھیں. ہر دیوار کا درمیانی فاصلہ ساٹھ فٹ کا تھا. دوسری اور تیسری دیوار کے درمیان 100 فٹ گہری خندق بھی تھی. یہ دیواریں پانچویں صدی عیسوی میں شہنشاہ تھیوڈوسیس دوم (Theodosis II) نے بنوائی تهیں. اور اب تک تمام حملے ناکام کر چکی تهیں. قسطنطنیہ کی فتح کے لیئے ضروری تها کہ ان دیواروں پر تسلسل سے توپوں سے گولا باری کی جائے. توپوں کا استعمال اس وقت ترک کر رہے تهے لیکن سلطان محمد نے پرانی توپوں کو ناکام قرار دے کر نئی عظیم الشان توپیں بنوائیں. اربان (Urban) نامی ایک عیسائی انجینیئر اس وقت بازنطینی ملازمت چهوڑ کر سلطان محمد کے پاس آ گیا تها. اس نے ایک بہت بڑی شاندار توپ بنا کر دی. جس کے گولے کا قطر ڈهائی فٹ تها. اس کے علاوہ اس نے چهوٹی توپیں بهی بنا کر دیں جو تیزی سے گولے برسا سکتی تهیں.
:6 اپریل 1453ء (بمطابق 26 ربیع الاول 857ھ) سلطان محمد نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا. عثمانی افواج دیواروں سے ٹکراتی رہیں. دیوار پر چڑھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی. دروازہ توڑنے کی کوششوں میں بے شمار مسلمان فوجی شہید ہوئے. کئی مرتبہ مشیروں اور وزیروں نے مشورہ دیا کہ آپ پیچھے ہٹ جائیں یہ قلعہ فتح کرنا ناممکن ہے لیکن مسلمانوں کا یہ عظیم الشان سلطان جو اُس وقت میدان میں سپہ سالار کا کردار بھی ادا کر رہا تھا۔ استقامت کا پہاڑ بن کر دشمن کا مقابلہ کرتا رہا۔ سمندر کے پانیوں میں بھی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ 20 جمادی الاولی 29 مئی 1453ء آج محاصرے کو 54 دن ہو چکے تھے. سلطان محمد اور اس کی فوج نے رات عبادت اور دعا میں گزانے کے بعد نماز فجر ادا کی۔
21 سالہ عثمانی سلطان محمد فاتح سپہ سالار بن کر غیر متوقع طور پر اپنی فوج کے اگلے مورچوں پر پہنچ گئے۔
 اور شہر پر زبردست حملہ کیا. توپوں کی گولہ باری کی وجہ سے جس جگہ سے شگاف تھا. وہاں گھمسان کا رن پڑا۔  سلطان محمد بھی عزم و حوصلے کی اعلی مثال تھے۔  خود کمان سنبھال کر ایک شدید اور تازہ دم حملہ کروایا۔  اُدھر رومی بھی بڑی بے جگری سے لڑے۔ لیکن اِدھر سلطان محمد بذاتِ خود بھی بہادری اور شجاعت کی زندہ مثال بن گئے. سلطان محمد کے شاہی دستے نے سلطان کی کمان میں آکر ایسا کاری حملہ کیا کہ یہ اتنا کاری ثابت ہوا کہ شاہی دستہ شہر میں داخل ہو گیا. اس کے پیچھے عثمانی فوج داخل ہوتی چلی گئی. دیوار پر حسن (جو کہ شاہی دستے کا کمانڈر تھا) نے عثمانی پرچم لہرا دیا.
یوں20 جمادی الاولی 29 مئی 1543ء کو یہ شہر سلطان محمد نے فتح کر دکھایا. اور نبی مکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی حدیث پاک کا مصداق ٹھرایا۔ شہر میں داخل ہوتے ہی اپنا سر اللّٰہ پاک کی بارگاہ میں شکرانے کے طور پر جھکا دیا۔  سلطان محمد وہ نوجوان تھا جس کو اللّٰہ کے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے سینکڑوں سال پہلے ہی باکمال اور بہترین قرار دے دیا تھا۔ مسلم امہ کے نوجوانوں کے لیے سلطان محمد فاتح جیسی کئی مثالیں موجود ہیں کاش ہمارے معاشرے کے نوجوان ایسے واقعات سے سبق حاصل کریں کہ ہم بھی انہی باہمت، مرد مجاہد اور اسلام کے علمبرداروں کے ہم عمر اور نام لیوا ہیں۔ہمارے معاشرے کی حالت تو یہ ہے کہ اپنی تاریخ بھی نہیں جانتے۔ اور نہ ہی کبھی مطالعہ کرنے کی زحمت کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھئیے!  زندہ قومیں اپنی تاریخ یاد رکھتی ہیں قوموں کی تاریخ ان کے مستقبل کی راز داں ہوتی ہے۔ سلطان محمد فاتح جیسے نوجوان دنیا میں کامیابی و کامرانی حاصل کرتے ہیں اور کل اللّٰہ پاک کی بارگاہ میں سرخرو اٹھائے جائیں گے۔