14 فروری ویلنٹائن ڈے یا یوم حیاء | Ghulam Shabbir Minhas

ماہ فروری کا آغاز ہوتے ہی ویلنٹائن ڈے کے حوالہ سے بحث  شروع کر دی جاتی ہے۔ دونوں فریقین اپنے اپنے محاذورں پہ ڈٹے کھڑے ہیں۔ فرق اتنا پڑا ہے کہ وہ مسلم معاشرے جو اس رسم قبیح سے نابلد تھے اب ان میں بھی یہ بیماری سرایئت کر رہی یے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل اس دن کے بارے میں اشاروں کنایوں میں بات کرنے والے سرگوشیوں کی حدود پھلانگتے ہوئے اب پوری ڈھٹائی سے علی الاعلان منانے کا اہتمام کرنے لگے ہیں۔ پوش علاقوں میں باقاعدہ تقریبات رکھی جانے لگی ہیں اور اس سارے کھیل میں مسلم ممالک کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس نسل بد کی سرپرستی کر رہا ہے۔ بلکہ اگر تھوڑا سا حقیقی معنوں میں سچ بیان کردیا جائے تو موم بتی مافیا کی عورت کی آزادی کے ناٹک پہ لگی منڈی میں اتنی تیزی آگئی ہے کہ میرا جسم میری مرضی سے آگے تک کا سفر طے ہوچکا ہے۔ اور گمراہوں کے اس ٹولے کی ان بڑھتی حرکات کو دیکھ کر اب ویلنٹائن ڈے منانا معیوب نہیں لگ رہا جو کہ کسی بھی مسلم معاشرے کیلئے زیر قاتل بھی ہے اور لمحہ فکریہ بھی۔
ویلنٹائن ڈے کیا ہے۔ اس کا پس منظر جاننے کیلئے اگر آپ تاریخ کے سفر پہ نکل کھڑے ہوں تو سچ کی اس تلاش میں اس موضوع پر بھی تاریخ آپکو اسی طرح تھکا تھکا کر ہلکان کر دے گی جسطرح باقی موضوعات پر ہر مورخ کی اپنی تاریخ ہے۔ تاہم اس حوالہ سے جو زیادہ مشہور تاریخی پس منظر ہیں ان میں سے ایک روایات یہ بیان کی جاتی ہے کہ تیسری صدی میں کلیسائے روم میں "ویلنٹائن" نامی ایک پادری گذرا ہے جس کو کلیسا ہی کی ایک راہبہ پسند آگئی۔ عیسائی تعلیمات کے مطابق پادریوں اور راہبیات کیلئے تادم مرگ شادی حرام تھی اس لیئے ویلنٹائن نامی پادری کیلئے اس راہبہ سے جسمانی تعلق قائم کرنا ناممکن تھا جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ راہبہ کو اپنا ایک خواب سنایا جس میں "بشارت" دی گئی تھی کہ 14 فروری کے دن کوئی بھی راہبہ اور پادری جسمانی تعلقات قائم کر لیں تو ان پر زنا کی تہمت نہیں لگے گی اور نہ کوئی گناہ ہوگا۔ چنانچہ 14 فروری کے دن ان سے یہ گناہ سرزد ہوا تو اس وقت کے پوپ  نے مذہبی ساکھ، کلیسا کی روایات اور عیسائیت کا تقدس پامال کرنے کی پاداش میں ان دونوں کو زنا کے جرم میں قتل کروا دیا۔ جس کے بعد ویلنٹائن کو شہید محبت قرار دے کر 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانا شروع کر دیا گیا۔
اس حوالہ سے ایک روایت روم میں قبل مسیح کے دور سے بھی ملتی ہے جب روم کے بت پرست مشرکین 15 فروری کو جشن مناتے تھے۔ جو Feast the wolf یا Feas of Lupercaoius کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ جشن وہ اپنے دیوی دیوتاوں کے اعزاز میں انہیں خوش کرنے کیلئے مناتے تھے۔ ان دیوی دیوتاؤں میں Pan ( فطرت کا دیوتا) Februta Jano (عورتوں اور شادی کی دیوی) اور Pastoral gol Lupercalius (رومی دیوتا جس کے کئی دیویوں کیساتھ عشق و محبت کے تعلقات تھے ) شامل تھے۔ اس موقع پر ایک برتن میں تمام نوجوان لڑکیوں کے نام لکھ کر ڈالے جاتے تھے جس میں سے تمام لڑکے باری باری پرچی اٹھاتے اور اسطرح قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب ہونے والی لڑکی اس لڑکے کی ایک دن، ایک سال یا تمام عمر کی ساتھی (Sexual Companion ) قرار پاتی تھی۔ یہ دونوں محبت کے اظہار کیلئے آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے۔ یہ رسم رواں تھی کہ اس میں ویلنٹائن والا حادثہ ہوا اور یہ دونوں آپس میں یوں ضم ہویئں کہ اس میں سے اس منحوس دن نے جنم لے لیا۔ 
اسی تسلسل میں جڑی ایک تیسری روایت بھی موجود ہے کہ جب روم میں عیسائیت منظر عام پر آئی تو عیسایئوں نے اس ( اوپر بیان کردہ) جشن کو بھی اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کیلئے 14 فروری کے دن کا انتخاب کیا گیا جس دن رومیوں نے عیسائی پادری ویلنٹائن کو سزائے موت دی تھی۔ تاہم یہاں اس پادری کی سزا کی وجہ مختلف بیان کی گئی ہے۔ اس روایت کیمطابق رومی بادشاہ Claudius-ll کے عہد میں روم کی سرزمین مسلسل کشت و خون اور جنگوں کا مرکز بنی رہی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ Claudius کو اپنی فوج کیلئے مردوں کی کمی کا مسلہ درپیش آگیا۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ سامنے آئی کہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں کو چھوڑ کر پردیس جاکر لڑنا پسند نہیں کرتے تھے۔ بادشاہ نے اس مسلہ کا یہ حل نکالا کہ ایک خاص وقت تک کیلئے شادیوں پہ پابندی عائد کر دی تاکہ نوجوانوں کو فوج میں آنے پہ آمادہ کیا جاسکے۔ اس موقعہ پہ اسی پادری ویلنٹائن جس کا اوپر زکر آچکا ہے نے خفیہ طور پر نوجوانوں کی شادیاں کروانا شروع کر دیں۔ جب یہ راز فاش ہوا تو بادشاہ نے اس کو گرفتار کروا کر موت کی سزا سنا دی جیل میں یہ پادری جیلر کی بیٹی  کو دل دے بیٹھا جو روزانہ اس سے ملنے آتی تھی۔ مگر یہ راز تھا کیونکہ کسی بھی پادری کیلئے شادی یا محبت کرنا جائز  نہیں سمجھا جاتا تھا۔عیسائی ویلنٹائن کی عزت کرتے تھے کیونکہ جب رومی بادشاہ نے اسے پیشکش کی کہ اگر وہ عیسائیت چھوڑ کر رومی خداوں کی عبادت کرے تو نہ صرف اس سے معاف کردیا جائے گا بلکہ بادشاہ اس سے اپنی قربت اور بیٹی بھی دے گا۔ مگر ویلنٹائن ثابت قدم رہا جس کے نتیجے میں اس کو رومی جشن سے ایک دن پہلے یعنی 14 فروری 270ء کے دن موت کے گھاٹ اتار دیا گیا مرنے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کو آخری خط لکھا جس کا اختتام اس نے From Your Valentine کے الفاظ سے کیا۔ اسی وجہ سے اس دن کو محبت اور ویلنٹائن سے منسوب کر دیا گیا۔
مثال کیلئے چند ایک تاریخی روایات کو رقم کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد جہاں اسکا پس منظر بتانا تھا۔ وہیں یہ عرض کرنا بھی ہے کہ یہ تہوار کسی طرح بھی ہمارے لیئے نہیں ہے۔ نہ تو یہ ہماری روایات کے ساتھ مماثلت رکھتا ہے اور نہ مذہبی طور پہ یہ ہمیں سوٹ کرتا ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسی بے حیائی اور رسم بد ہے جس کو ہم محض اپنی رعونت، اپنے آپکو ایلیٹ کلاس ثابت کرنے ، خود کو ماڈرنیٹ منوانے اور مغرب کی اندھا دھند تقلید و نقالی کی وجہ سے گلے کا طوق بنائے بیٹھے ہیں۔ مسلم ممالک اور مسلم معاشروں میں اس کی قطعی اجازت اور حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاییئے۔ مگر یہاں المیہ یہ ہے کہ جس بیماری کا ہم زکر کر رہے ہیں یہ بیماری اشرافیہ کی اولادوں کو لگ چکی ہے۔ اور چونکہ ان کے باپ دادا اس ملک میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں اس لیئے اسکی اس طرح حوصلہ شکنی نہیں ہو پا رہی ۔ یہ لوگ بااثر بھی ہیں، بڑے عہدوں پہ براجمان بھی ہیں اور قانوں بھی یہی بنانے والے ہیں۔ میڈیا بھی انہی کا ہے۔ اور این جی اوز بھی انہی کی تشکیل پہ کام کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ یہ ہر آنے والے سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ منظم انداز میں منانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور وہ باتیں جو سرگوشیوں میں کی جاتی تھیں۔اسطرح کی تقریبات جو چوری چھپے کی جاتی تھیں اب وہ نہ صرف سرعام کی جانے لگی ہیں بلکہ انکی وسیع پیمانے پہ تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ کئی دن پہلے ان تقریبات کا اہتمام شروع کردیا جانے لگا ہے۔ اور اگر اس کی مناسب و منظم انداز میں حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو آنے والے دور میں اسکو بطور تہوار منایا جانے لگے گا۔ اس کے پیچھے یقینی طور پہ وہی مغرب کے پیروکار اور نمک خوار ہیں جنھوں نے عورت ڈے، بسنت اور ہیپی نیو ایئر جیسی بے ہودہ رسوم کو اس معاشرے میں داخل کر دیا ہے۔ جس معاشرہ کی روایات یہ ہیں رب کی غیرت کو یہ بھی گوارا نہیں کہ راہ چلتی عورت کے قدموں کی آہٹ بھی کسی غیر محرم کے کانوں تک نہ جائے۔ ہم اس  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے ماننے والے ہیں کہ جسکی لاڈلی بیٹی فاطمہ رض فرماتی ہیں میرا جنازہ رات کی تاریکی میں اٹھایا جائے تا کہ میرے کپڑائے کفن پہ بھی کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑے۔۔ خدا کیلئے اپنی نسل نو کو بے حیائی کے اس طوفان سے بچایئں۔ اور اس دن کو یوم حیاء کے طور پہ منایئں۔