مدارس اسلامیہ کے تعلیمی سال کا اختتام اور ختم بخاری کی تقریب | Rao Umar Farooq

مدارس اسلامیہ میں تعلیمی سال اپنے اختتامی مراحل میں ہے، ہر طرف اختتامی تقریبات و ختم بخاری شریف کی تقریبات اپنے آب و تاب سے جاری و ساری ہیں، اور اساتذہ و مشائخ  اپنے تیار کردہ گل دستے اس امت کے حوالے کرنے جا رہے ہیں، یہ ایسے گل دستے ہیں جنہوں نے سالہاسال اپنے اساتذہ سے زانوے تلمذ اختیار کر کے نبوی علوم و معارف کو اپنے سینوں میں سمویا ہے جس کا اظہار ان کے جسد خاکی سے نکلنے والے اعمال و افکار کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے، یہی وہ علم و عمل کا سر چشمہ ہے جس کی بنیاد نبوی دور میں اصحاب صفہ سے شروع ہوتی ہے پھر اسی سے پورا عالم سیراب ہوتا چلا آرہا ہے، یہ اسی گلدستہ کی ایک کڑی ہے جس کی خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں بنیاد رکھی تھی، یہ وہی امانت ہے جسے جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالی کی طرف سے پیارے آقا محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر تشریف لائے پھر محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ امانت صحابہ کرام و اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیم اجمعین کی سپرد کی جس کو اس جماعت نے اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے طرح طرح کے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے امت کے سپرد کی، یہ وہی امانت ہے جسے ائمہ فقاہت بالخصوص امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور انکی جماعت نے وقت کے اعتبار سے امت کے سامنے ایسے کھول کر رکھ دیا جیسے سورج کی روشنی سے عالم کی ہر چیز ظاہر ہو جاتی ہے، در اصل یہ نبوی علوم معارف کا ہی ثمر ہے جو ائمہ فقاہت کے ہاتھوں اللہ رب العزت نے ظاہر فرمایا، یہ وہی امانت ہے جسے ائمہ حدیث بالخصوص امام بخاری و امام مسلم رحمہ اللہ اور ان کی جماعت نے اپنے ہیرے و جواہرات سے قیمتی جانیں وقف کر کے اپنے حافظوں کی کل سکت کو خرچ کر کے اس امانت کی حفاظت کی اور اس امانت کی طرف بری نگاہ ڈالنے والوں کے ناپاک عزائم کو قیامت تک کے لئے خس وخاشاک کیا، پھر اس امانت کو امت نے اس طرح سنبھالا کہ لاتعداد خوش نصیب سینوں نے قرآن پاک کی طرح حدیث و فقہ کو اپنے سینوں میں سمو لیا اور امت کی ایک جماعت نے اس امانت کو اٹھانے کی ذمہ داری اپنے سر لی اور اس امانت کی حفاظت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور اس کی پاداش میں سخت سے سخت تکالیف کو برداشت کرتے چلے گئے، یہ وہی جماعت تھی جس کے افراد نے مالٹا کی جیلوں کو بھی برداشت کیا اور اسی جماعت کے افراد کے توپوں کے سامنے باندھ کر پرخچے بھی اڑائے گئے لیکن اس جماعت نے اپنی ذمہ داری میں ذرا سی بھی غفلت سے کام نہیں لیا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی اس امانت کا امین جب کوئی حدیث پڑھتا تو اس کے سامنے اسانید کا ایک ایسا سلسلہ محفوظ دکھائی دیتا جس سے وہ با آسانی محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اطہر تک پہنچ جاتا ہے جو جہاں دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق ہونے کے دلیل ہے وہیں اس جماعت کی امانت و دیانت کی بھی واضح دلیل ہے، یہ اسی جماعت کے افراد کی قربانیوں کا ثمر ہے کہ پوری دنیا میں اس کے رجال کار ایک منظم طریقے سے آج بھی اپنی آب و تاب سے موجود نظر آ رہے ہیں پوری دنیا میں مدارس دینیہ کا ایک جال بنا جا چکا ہے، جہاں سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ایسے افراد تیار ہو کر نکل رہے ہیں جو نا صرف اس امانت کو اپنے اندر سمو کر اپنے اعمال و افکار سے اس کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ اپنے اساتذہ و مشائخ کے ساتھ اس عزم کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ انشاء اللہ جب تک جان میں جان رہے گی ہم اس امانت کی نا صرف حفاظت کرتے رہیں گے بلکہ اس امانت کو آگے امت تک منتقل کرنے کو فرض منصبی سمجھ کر سر انجام دیتے رہیں گے، یہی وہ گل دستے ہیں جنہیں آج کے اساتذہ و مشائخ دیکھ کر رب کائنات کی بارگاہ میں تشکر بجا لا رہے کہ یا رب العالمین جس امانت کا امین آپ نے ہمیں بنایا تھا ہم نے وہ امانت بحفاظت آگے منتقل کر کے اپنا فرض منصبی ادا کر دیا ہے، بحمدبہ تعالی اللہ رب العزت نے اسی جماعت کا ایک ادنی سا فرد ہونے کی سعادت سے بندہ ناچیزکو بھی نوازا 2015 میں جب جامعہ اشرفیہ لاہور سے سند فراغت کا تاج اساتذہ کرام کی طرف سے سجایا رہا تھا تو وہ وقت آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے جب اساتذہ کرام کی نصائح کا سلسلہ جاری و ساری تھا ، اور ہماری آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں تھا، تمام نصائح میں سے ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ آج ہم نے یہ امانت آپ کے سپرد کر دی ہے اب اس کی لاج رکھنا آپکا کام ہے اور رئیس جامعہ استاذ محترم المفتی حضرت مولانا عبید اللہ اشرفی رحمہ اللہ (جو اب اس دار فانی سے اپنا فرض منصبی ادا کر کے داربقا میں قدم رکھ چکے ہیں اللہ استاذ محترم کو کروٹ کروٹ راحت و سکون عطاء فرمائے اور تمام اساتذہ کرام جو آج اس دنیا میں نہیں رہے تمام کے تمام کو جنت میں اعلی مقام عطاء فرئے) کی ایک نصیحت جس نے ہلا کر رکھا دیا کہ دیکھنا اگر دین کا کام نا کر سکو تو کم از کم دین کی بدنامی کا سبب بھی نا بننا، یعنی اگر اس امانت کی حفاظت نا کر سکو تو کم از کم اتنا ضرور کرنا کہ اس امانت میں خیانت بھی نا کرنا، یہ وہ نصیحت ہے جسے میرے جیسے ہر طالب علم اور اس جماعت کے ہر سپاہی کو ہر وقت مد نظر رکھنا لازم اور ضروری ہے، چنانچہ جب بھی یہ موسم آتا ہے ہمیں بھی ایک مرتبہ پھر سے ہمارا ماضی یاد دلاتا چلا جاتا ہے، اور ایسی باسعادت محافل میں پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے جہاں ایک مرتبہ پھر سے اساتذہ و مشائخ کی نصائح کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، اسی سلسلہ میں 6 مارچ 2021 کو جامعہ نعمان بن ثابت جو ہمارا مکتب تعلیم القرآن الکریم کا سینٹر بھی ہے (اور رئیس جامعہ حضرت مولانا مفتی محمد احمد صاحب سے ایک عقیدت و محبت کا تعلق بھی ہے) کے ہاں ختم بخاری کی تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی جہاں ختم بخاری شریف کے لئے میرے شیخ اور ترمذی شریف کے استاذ محترم میرےمحسن و مربی شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور حضرت مولانا یوسف خان صاحب مدظلہ تشریف لائے ہوئے تھے استاذ محترم سے میرا چونکہ بیعت کا تعلق بھی ہے اس لئے استاذ محترم سے ایک قلبی لگاؤ ہونے کی وجہ سے بھی جانا ضروری تھا، الحمد اللہ ایک مرتبہ پھر سے استاذ محترم سے سبق پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی اوراستاذ محترم نے اپنی حدیث مبارکہ کی دس سلسلہ اسانید کی اجازت حدیث سے بھی نوازا اور اس کے ساتھ بخاری شریف کی آخری حدیث مبارکہ "اعمال کا وزن کیا جائے گا" کے تحت نصائح سے بھی مستفید فرمایا جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اللہ رب العزت قیامت کے دن ہمارے اعمال کا وزن فرمائیں گے، اور اعمال کے وزن کو عقلی دلیل سے سمجھایا کہ جس طرح بیٹری کے اندر جو طاقت ہوتی ہے وہ دکھائی تو نہیں دیتی لیکن ہم موبائل کی سکرین پر بیٹری کے فیصد دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اس وقت بیٹری میں کتنی طاقت موجود ہے، جب ایک انسانی دماغ بیٹری کی طاقت کا وزن کر سکتا ہے تو اللہ رب العزت تو بطریق اولی اعمال کا وزن کر سکتے ہیں، اسی کے ضمن میں استاذ محترم نے ایک نکتہ بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق قیامت کے دن اعمال تولے جائیں گے تمام ذخیرہ احادیث میں کہیں پر یہ نہیں فرمایا گیا کہ علم بھی تولا جائے گا وہ اس لئے کہ نجات کا دار و مداد ایمان اور عمل ہے علم نجات کا مدار نہیں ہے صرف علم کی وجہ سے نا تو کسی کی نجات ہو گی اور نا ہی جنت میں داخل ہو گا جنت میں داخلہ ایمان و عمل کی بنیاد پر ہو گا اور استاذ محترم نے ارشاد فرمایا کہ اقوال بھی اصل میں اعمال ہی ہیں کیونکہ عمل کی تعریف یہ ہے کہ جو کام انسان اپنے اعضاء سے سرانجام دیتا ہے وہ عمل کہلاتا ہے، یہاں پر استاذ محترم نے طلباء کو سمجھانے کے لئے منطق کی اصطلاح عموم و خصوص مطلق کا بھی بیان فرمایا کہ ہر قول عمل ہوتا ہے لیکن ہرعمل قول نہیں ہوتا، اس سے پتہ چلتا ہے اعمال و اقوال ایک ہی چیز ہیں یعنی اعمال، کیوں کہ جب اعمال کا ذکر کیا جائے گا تو اقوال خود بخود اس کے اندر آ جائیں گے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ در اصل ایمان بھی عمل ہی ہوتا ہے، اور یہاں پر یہ بات یاد رہے ایمان جاننے کا نام نہیں بلکہ ماننے کا نام ہے، اگر کوئی غیرمسلم یہ کہے کہ میں مکمل اسلام کو جانتا ہوں اللہ کو ایک جانتا ہوں تمام سیرت طیبہ کو جانتا ہوں وہ مومن نہیں کہلائے گا جب تک کہ وہ مان نہ لے، کیوں کہ آخرت میں علم کو نہیں تولا جائے گا بلکہ عمل کا وزن ہو گا اور ماننا بھی ایک عمل ہے، اس لئے عزیز طلباء و طالبات یہ چیز اپنے ذہن میں بٹھالیں آخرت میں علم کو نہیں تولا جائے گا کہ کس نے کتنی کتابیں پڑھیں کتنے نمبر حاصل کئے آخرت میں اس کو نہیں تولا جائے گا، یہ بات بھی ذہن میں رکھیں صرف علم حاصل کرنے سے اللہ راضی نہیں ہوتا اللہ کی رضا اور نجات اخروی علم پر عمل اور علم کی آگے اشاعت سے مشروط ہے، استاذ محترم نے یہاں ایک بہت اہم بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ اگر خود تو عمل کرتے رہیں لیکن اس علم یعنی اس امانت کو آگے نہیں پہنچایا تو بھی اللہ ناراض ہو گا اور اسی طرح اگر آگے تو علم پہنچاتے رہے اور خود عمل نہیں کیا تو اللہ پوچھے گا " اتئمرون الناس باالبر و تلسون انفسکم" یعنی لوگوں کو تو نیکی کا حکم کرتے رہے اور خود کو بھول بیٹھے۔ اس پر بھی اللہ ناراض ہوں گے اور آپ کے اساتذہ کرام جو یہ ارشاد فرماتے رہے کہ اللہ کی رضا کے لئےعلم حاصل کرو اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنے اندر اخلاص پیدا کرو، اور آخر میں استاذ محترم نے بخاری شریف کی آخری حدیث کی سند پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث پہلے بھی بیان فرمائی لیکن امام صاحب جب کوئی حدیث دوسری مرتبہ لاتے ہیں تو دوسری سند سے وہ حدیث لاتے ہیں یہاں امام صاحب یہ حدیث جس سند سے لائے ہیں اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی ہیں جن کا نام ابی ذرعہ ہے، یہ وہ خوش نصیب راوی ہیں جب ان کا انتقال ہوا اس وقت یہ راوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مبارکہ بیان فرما رہے تھے " من قالا لا الہ الا اللہ دخلہ جنة " چنانچہ جب یہ راوی من قال لا الہ اللہ پر پہنچے تو اس وقت ان کی روح قبض ہو گئی، یعنی ان کی زبان سے جو  آخری کلمات ادا ہوئے وہ "لاالہ الا اللہ" تھے اور "دخل الجنة"کے عملی مصداق بن گئے، اسی مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ ان کی سند کو اپنی کتاب کے آخر میں لے کر آئے، دعا ہے اللہ رب العزت بندہ ناچیز کو بھی تا دم آخر اسی جماعت کا حصہ بنے رہنے کی توفیق عطاء فرمائے اور امانت کا حق ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، اور ہم سب کی زبانوں پر بھی آخری کلمہ "لاالہ الا اللہ" جاری فرما دے۔ آمین!