رزق و نیکیوں کو افزدوگی،تزکیہ دینے والی مالی عبادت زکوٰۃ؛تحریر امتیاز یٰسین فتح پور

زکوٰۃ ارکان اسلام کا تیسرااہم رکن جس کے مرکب لغوی معنی پاک کرنا یا بڑھانا ہے۔یہ مالی عبادت آسودہ حال مسلم افراد سے سالانہ مدت تعین اور شرائط مخصوصہ کے ساتھ لیکر مستحق مسلمان افراد تک پہنچانے کا عمل ہے۔ جماہیر علماء کے نزدیک1 ہجری میں زکوٰۃفرض ہوئی اور 2 ہجری میں اس کی ادائیگی اور مصارف کی تصریح وتشریح ہوئی۔زکوٰۃ کا حکم نہ صرف امتِ محمدیہ کے لئے لازم قرار پایا بلکہ سورہ مائدہ میں بنی اسرائیل کو زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم موجود ہے۔اس کی اہمیت کا  اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں اتصال و ارتباط کا یہ عالم ہے قران مجید میں بار بار جہاں نماز کا حکم ہوا وہاں زکوٰۃ کی ادائیگی کی تاکید بھی کی گئی،قران مجید میں تقریباً بیاسی مقامات پر نماز اور زکٰوۃ کا حکم یکجا وارد ہوا ہے۔ امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق کے خلافت سنبھالتے ہی جہاں دیگر فتنوں نے سر اٹھایا تو ان میں سے ایک منکرین زکٰواۃ بھی تھے یہ عمل چونکہ اسلامی ہیت اقتدار کے منافی تھا تو آپ ؓ نے ان کے مواخذہ کے لئے پوری قوت نافذہ کے ساتھ اعلان کیا اگر کسی کے ذمہ ایک رسی کا ٹکڑا بھی زکٰواۃ کی مد میں باقی ہو گا اورتاآنکہ ان کے عزائم پوری طرح فِرو  نہ ہو جائیں تو اس کے خلاف جہاد کا اعلان اور تلواریں بے نیام کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے غریبوں کی حاجت روائی و مداوائی،اانسانوں کے درمیان غمگساری،ایثار،محبت اور اجتماعیت پیدا کرنے ،گناہوں کے کفارہ اور اللہ کی نصرت کے حصول لئے زکواٰۃ کو فرض قرار دیا۔ اس کوادا کرنے والے کو اللہ پاک سچا مومن اور ادا نہ کرنے والے کو آخرت کا منکر قرار دیتے ہیں۔زکٰوۃ صاحبِ نصاب(جس پر زکٰوۃ فرض ہو)پر لازم ہے۔ شرائط و مُتفاوِت میں زکوٰۃ 2.5فیصد(مال کا چالیسواں حصہ) کے حساب سے لی جاتی ہے۔اس کِی ادائیگی کا نصاب و مُشَخّص ساڑھے سات تولہ سونا،ساڑھے باون تولہ چاندی یا س کے برابر نقدی،مال تجارت موجود ہو۔زکوٰۃ مال مویشیوں پر بھی لازم ہے۔ اس کو صدقہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔یہ انسان کی سرشت کو بخیلی سے نکال کر سخی کی طرف راغب کرتی ہے جو صفت اللہ اور اللہ کے رسول کو بہت عزیز ہے۔زکوٰۃ دل کو سکون و طمانیت بخشتی ہے یہ معاشرے میں معاشی استحکام کا ذریعہ اور معاشی نا ہمواری وجرائم کا خاتمہ کرتی ہے۔گداگری جیسی کریہہ لعنت متروک ہوتی ہے۔ جب ضرورت مند کو اپنی جائز ضرورت کے لئے امداد میّسر آ جاتی ہے تو وہ چوری یا دیگر منفی ذرائع ضرورت پوری کرنے کا خیال ترک کر دیتا ہے۔ اس کے مصارف و مَدّات قران مجید کی سورہ توبہ میں واضح ہیں    ”صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کیلئے ہے اورعاملوں (زکوٰۃ جمع کرنے والے)کے لئے ہے۔اور ان کے لئے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑوانے میں،اور تاوان بھرنے والوں میں،اور اللہ کے راستے میں،اور مسافروں میں،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے“زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والوں کوسخت سزا کی وعید ہے   ”جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں درد ناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے جس دن اس خزانے کو دوزخ کی ٓگ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں،پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی“اس طرح نبی ّپاک ّ کا فرمان ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں سے اپنی کنجوسی کو بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لئے نہایت بد تر ہے“ نبی پاک ؐ کا یہ بھی فرمان ہے ہر شخص روز قیامت اپنے صدقے کے سائے تلے ہو گا۔اس کی ادائیگی سے مال پاک اور اللہ پاک رزق میں اضافہ فرما دیتے ہیں؛جس کے طفیل رزق کی بڑھوتری کا ذکر بار با فرمایا گیاتم لوگ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کا بہتر بدلہ دے گا۔زکوٰۃ ادا کرنے سے رزق پاک ہو جاتا ہے۔عصر حاضر میں جب کروناعالمی وباء نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس کے ضمنی اثرات معیشت پر پڑے ہیں۔بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔بہت ضروری ہے کہ جب ماہ مقدس کی آمد آمد ہے جس میں نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے حاجت مندوں کی مالی اعانت فرما کے زکواٰۃ کی ادائیگی فرما کر اللہ اور اس کے کنبہ کو راضی کر لیا جائے۔زکواۃ کی ادائیگی میں اول خویش بعد درویش کا فارمولا اپنایا جائے۔ہمارے ارد گرد اپنے بیگانے کئی گھرانے ہماری امداد کے متظر ہوتے ہیں لیکن ہماری نظریں ان پر جانے کی بجائے ایثار وزکوٰۃ کیلئے دور دور بھاگ رہے ہوتے ہیں۔زکوٰۃ بے شمار انفرادی و اجتماعی اور دنیا و اخروی فوائد و افاضہ کا موجب ہے۔اللہ پاک ہم سب کو صراط مستقیم اور مستحق افراد کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کی توفق عطا فرمائے۔
امتیاز یٰسین  ایم اے پولیٹیکل سائنس،بی ایڈ پرنسپل برائٹ لائسیم سکول