نواب صادق محمد خان (پنجم)۔۔۔۔ محسن پاکستان | Khuda Yaar Khan Channar

 قیام پاکستان کے اکابرین میں ویسے توقائد اعظم محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خان، راجا صاحب محمود آباد وغیرہ جیسے رہنما شامل ہیں۔لیکن ان کے ساتھ ساتھ ایسے بہت سے رہنما ہیں جن کے نام تو نہیں آئے لیکن انکی کاوشیں اور قربانیوں کو کسی صورت بھلایا نہیں جا سکتا۔ نواب آ ف بہاول پور سر صادق محمد عباسی (پنجم)بھی ایسی ہی شخصیت ہیں جن کے پاکستان پر اتنے احسانات ہیں کہ انھیں ”محسن پاکستان“ کا خطاب دیا گیا۔
نواب صاحب نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی مدد کے لئے نہ صرف اپنی ریاست بلکہ ذاتی خزانے کے منہ کھول دیے۔انھوں نے ملک کو اس وقت سات کروڑ روپے سرکاری محکموں کے ملازمین کو ایک ماہ کی تنخواہ کی مدد میں دیے جب پاکستان معاشی مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔پاکستان کی اپنی کرنسی کے لیے نواب صاحب نے بہت بڑی رقم بھی دی۔جو آج کے حساب سے کھربوں نہیں تو اربوں ضرور بنتی ہے۔قائد اعظم نے گورنر جنرل کے طور پر پہلی بار گارڈ آف آنر کا معائنہ کرنا تھا تو نواب اف بہاول پور نے اپنی قیمتی گاڑی رولز رائس تحفہ میں دے دی۔ حتی کہ گورنر جنرل ہاؤس میں شاہی مہمانوں کے لیے کراکری بھی نواب صاحب نے بہاول پور سے پہنچائی۔نواب سر صادق محمد عباسی نے قیام پاکستان کے وقت مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کیا۔بہاول پور کی حدود میں لاکھوں لٹے پٹے مہاجرین کو پناہ دی اور ان کے غم میں برابر کے شریک ہوئے۔نواب آف بہاول پور نے قیام پاکستان کے فورا بعد اپنی ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر لیا تھا۔ انھوں نے انیس اکتوبر انیس سو سینتالیس کو ریاست کا پاکستان سے الحاق کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ گہری دوستی رکھنے والے نواب صاحب نے انیس سوپینتالیس میں دہلی میں قائد اعظم سے ملاقات میں الگ مملکت کے حصول کی کوششوں میں بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔جبکہ کانگریسی لیڈران نے ریاست بہاول پور کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی خوب کوششیں کیں۔ جواہر لال نہرو نے الحاق کے بدلے بلینک چیک اور فیروز پور ضلع ریاست بہاول پور میں شامل کرنے کی پیشکش بھی کر دی تھی۔جو انھوں نے ٹھکرا دی۔نواب صاحب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔کئی ایک بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔گورنر جنرل غلام محمد نے انیس سو پچپن میں ریاست بہاول پور کی تاریخی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے مغربی پاکستان کا حصہ بنا دیا۔ تو یہ ریاست جو اپنے رقبے میں کویت اور لبنان سے بھی بڑی تھی ایک ڈویژن تک محدود ہو گئی۔۔ ریاست بہاول پور کا دارالحکومت بہاول پور شہر اس ریاست کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتا ہے۔ اس شہر کی ترقی میں نواب صادق کا کردار بڑا اہم ہے۔ انھوں نے محلات کے ساتھ ساتھ لائبریریاں، سکول، کالجز اور دیگر تعلیمی ادارے قائم کیے۔ صادق پبلک اسکول صادق دین ہائی اسکول اور جامعہ اسلامیہ سب نواب آف بہاولپور کی وجہ سے قائم ہوئے۔ اس زمانے میں ریاست بہاول پور میں اے لیول تک تعلیم مفت تھی۔ اسی طرح سے صحت کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے بہاول وکٹوریہ ہسپتال اور سیول ہسپتال جیسے ادارے بنوائے۔ یہ سہولیات ریاست کے دیگر قصبات میں بھی میسر تھی، زراعت کی ترقی کے لیے انھوں نے ستلج ویلی پروجیکٹ کے ذریعے آب پاشی کا نظام بہتر بنایا۔ ان اقدامات سے ریاست نے ہر شعبے میں ترقی کی۔ اور ریاست بہاول پور میں خوش حالی کا دور دورا تھا۔
نواب صاحب نے اس خوش حالی کے اثرات پورے برصغیر تک پھیلائے۔ پنجاب یونیورسٹی، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور اور ایسے کئی اداروں کی نواب صاحب نے ذاتی زمین اور پیسے سے مدد کی۔ کوئی آفت ہو یا کوئی اور ہنگامی صورتحال نواب صاحب ہمیشہ پیش پیش رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا دور عوام کی نظر میں آج بھی ایک سنہرا دور تصور ہوتا ہے۔ ریاست بہاولپور قیام پاکستان کے وقت الحاق کرنے والی پہلی ریاست تھی۔ بہاول پور رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع اور ڈویژن ہے۔ ریاست بہاولپور نے پاکستان کی دفاعی صلاحیتیں مضبوط کرنے کے لیے اپنی فوج مع اسلحہ اور فوجی چھاؤنیاں دیں۔ ریاست نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو ذاتی کرنسی کے اجراء کے لیے بارہ من سونا دیا تھا۔ نواب آف بہاولپور نے قائد اعظم کو ذاتی گھر دیا اور ان کے استعمال کے لیے ذاتی گاڑی رولز رائس تحفے میں دی۔ وہ گاڑی آج بھی کراچی میں قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں موجود ہے۔ بہاول پور انیس سو اکاون 1951 تا 1954چون ایک علیحدہ صوبہ رہا۔ قیام پاکستان کے فورا بعد نواب صاحب نے سرکاری اداروں بشمول مشرقی پاکستان پہلے دو ماہ کی تنخواہ دی۔ بہاول پور آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا گیارھواں بڑا شہر ہے۔ بہاول پور میں موجود نور محل، گل زار محل، اور دربار محل کی وجہ سے اسے محلوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہ برصغیر کی دوسری امیر ترین ریاست تھی۔ نواب صاحب نے اس وقت اس میں کالج بنوایا تھا جب کالج لیول کی تعلیم صرف لاہور یا دہلی میں دی جاتی تھی۔ آپ ریاست کے آخری حکمران تھے۔ آپ ستمبر انیس سو چار میں پیدا ہوئے۔ اور مئی انیس سو سڑسٹھ میں وفات پائی۔ آپ تین سال کی عمر میں ریاست کے نواب بنے۔ اور انیس سو پچپن تک حکمرانی کی۔ آپ کے تحریک پاکستان کے دوران اپنے محلات الشمس محل اور الکرم محل قائد اعظم اور فاطمہ جناح کو دے دیے تھے۔ جہاں آج سندھ کا گورنر قیام کرتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستانی کرنسی کی اس وقت گارنٹی دی تھی جب کوئی ملک اس کے لیے تیار نہ تھا۔ اس لیے قائد اعظم نے نواب صاحب کو '' محسن پاکستان '' کا لقب دیا۔ بہاول پور انیس سو پچپن تک صوبہ تھا۔ آپ نے پاکستان نے ساتھ معتدل معاہدے کیے۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں بہاول پور ریاست ایک صوبہ بنا۔ انیس سو اکاون کے انسٹرومنٹ آف ایکشن جو کہ ایک ضمنی معاہدہ تھا جس کے تحت ریاست بہاولپور کے تمام مرکزی امور حکومت پاکستان نے لے لیے تھے۔ صوبائی امور جو باقی صوبوں کو حاصل تھے ان کا اختیار بہاول پور صوبے کو دے دیے گئے تھے۔ جب پاکستان میں الیکشن ہوئے تو باقی صوبوں کی طرح بہاول پور میں بھی انتخابات ہوئے۔ یہاں کے لوگوں نے اس وقت کی بڑی جماعت مسلم لیگ کو ووٹ دیے۔ مسلم لیگ کی طرف سے مخدوم سید حسن محمود بہاول پور کے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ انیس سو باون سے لے کر انیس سو پچپن تک بہاول پور کی صوبائی حیثیت ایک صوبے کی سی رہی۔ بہاول پور کی علیحدہ منتخب اسمبلی تھی۔ بہاول پور کے وزیر اعلی کے اختیارات ویسے ہی تھے جو دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے تھے۔ بہاول پور اسمبلی میں قانون سازی بھی ہوتی تھی۔ اسمبلی کا اپنا الگ سیکٹریٹ تھا۔ جبکہ یہاں اپنا الگ پبلک سروس کمیشن تھا۔ پھر یہ ظالم لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ بہاول پور صوبہ نہیں تھا۔ حضرت علی کا قول ہے کہ جس کے ساتھ بھلا کرو اس کے شر سے بچو۔ ریاست بہاولپور کی عوام کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ پاکستان بنانے میں سب سے زیادہ قربانیاں ریاست بہاولپور نے دیں۔ اور آج زیادتی بھی اسی خطے کے لوگوں کے ساتھ ہو رہی ہے۔ کبھی یہاں کا دریا بیچ دیا جاتا ہے۔ کبھی صوبائی حیثیت ختم کر دی جاتی ہے۔ کبھی پورے چولستان سے چولستانیوں کو محروم کر دیا جاتا ہے۔کبھی ریاست بہاولپور کی قیمتی سرکاری املاک کو نیلام کر کے کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کردیا جاتا ہے ریاست بہاولپور کے نوجوانوں اور عوام کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں