گزشتہ پچھتہر سالوں کی طرح اس سال بھی بارشیں معمول اور پیشین گوئیوں سے بہت زیادہ ہوئیں اس سال بھی وطن عزیز کے تقریبا تین صوبے سیلابوں کی زد میں ہیں اور ہمیشہ کی طرح ہمارے قابل اور محنتی وزرائے اعلی انتظامیہ پر برہم ہمیشہ کی طرح فوری نکاسی
آب کے انتظامات کرنے کا حکم صادر ہمیشہ کی طرح میرے لوگ آج بھی کھلے آسمان تلے اپنے ہم وطنوں کی طرف سے بھیجی جانے والی امداد کے منتظر
ہمیشہ کی طرح سیلابی علاقوں میں خوراک اور علاج کی کمی کا سامنا ہمیشہ کی طرح
آئندہ چند دنوں میں آپ سماعت فرمائیں گے کہ سیلابی علاقوں میں بیماریاں پھوٹ پڑیں
آ خر کب تک ایسے ہی چلتا رہے گا ؟یہاں پر بہت سے سوال جنم لیتے ہیں کہ کیا یہ بارشیں اچانک ہوئیں؟ کیا صرف اسی سال ہوئیں ؟ کیا سیلاب پہلی دفعہ آئے تو اس کا جواب ہوگا نہیں آخر کب تک ہم جعفر آباد اور نصیر آباد کے لوگوں کو سیلابی ریلوں میں بہتا دیکھیں گے
آ خر کب تک جھل مگسی ،قلعہ سیف اللہ ،قلعہ عبداللہ ،زیارت، کوئٹہ، پشین میں ہر سال سیلاب سے بہ جانے والی سڑکوں کو نئے سرے سے بنائیں گے ؟ آخر کب تک میرے کسانوں کی محنت اور خون پسینے سے اگائی گئی فصلوں کی بلی چڑھتی رہے گی؟ آخر کب تک لوگ سڑکوں کے کناروں پر ٹینٹ لگائے حکومتی امداد کے منتظر رہیں گے؟ آخر کب تک ہم حکمرانوں کی چالاکیاں برداشت کریں گے؟ کب تک یہ سنتے رہیں گے کہ وزیراعلی نے انتظامیہ کو سیلابی پانی نکالنے کا حکم صادر فرما دیا ہے؟ میرے خیال میں اب بس ہو جانی چاہیے اب اس کھیل کو بند ہو جانا چاہیے
اگر ہماری حکمران جماعتیں اپنی عوام کو محفوظ بنانا چاہیں تو ان کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ان کے پاس ماہرین کی پوری فوج موجود ہے جو ایک ہفتہ میں انہیں ساری فیزیبلٹی تیار کر کے دے سکتی ہے اگر وہ قیمتی اذہان یہ کام کرنے سے قاصر ہیں تو چلو میں حکومت کی مدد کیے دیتا ہوں
پاکستان کے چاروں صوبوں میں اگر کوئی حکومت متحرک اور کام کرتی دکھائی دے رہی ہے تو بلا شبہ حکومت پنجاب ہے حالیہ بارشوں نے دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی سنتالیس سالہ ریکارڈ توڑے ہیں خوش قسمتی سے جنوبی پنجاب کے چند علاقوں کے علاوہ پنجاب کے زیادہ تر علاقے محفوظ رہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ پنجاب میں انتظامی مشینری نے اپنا فرض ادا کر دیا اس وقت تک لاہور سمیت پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں بڑے روہی نالوں اور چھوٹے نالوں کی صفائی کا کام نہیں ہو سکا تمام شہروں کے بڑے
چھوٹے نالے ابھی تک گندگی سے بھرے پڑے ہیں ان بارشوں میں اگر پنجاب سیلابوں سے محفوظ رہا ہے تو یہ اللہ کی کرم نوازی ہے اس میں انتظامیہ کا بہت معمولی سا کردار ہے
جناب وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ برائے کرم کسی ہنگامی صورتحال سے پہلے انتظامیہ، ایم سی ایل اور واسا کو حکم جاری فرما دیں کہ نالوں کی صفائی کا کامجلد از جلد مکمل کر لیں تاکہ کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکے
بلوچستان میں اگر حکومت کام کرنا چاہے تو موجودہ اور گزشتہ سیلابوں نے اپنے تمام راستوں کی نشاندہی خود ہی کر دی ہے اب جس جس جگہ سے پانی گزرا ہے وہاں سے مستقبل میں آنے والے سیلابی ریلوں کے لیے کھلا راستہ بنا دیا جائے جہاں سے سڑکیں سیلابی پانی میں بہہ گئی ہیں وہاں پل تعمیر کر کے پانی کو کھلا اور رکاوٹوں سے پاک راستہ فراہم کر دیا جائے بلوچستان کا تقریبا نو ے فیصد حصہ آبادی سے خالی ہے ان تمام زمینوں کا از سرے نو جائزہ لیا جائے جو زمینیں ابھی تک غیر آباد ہیں وہاں نئی جھیلیں بنا کر پانی کو زراعت کے لیے محفوظ کر لیا جائے بارشوں کو کوئی نہیں روک سکتا لیکن سیلابی ریلوں کو راستہ فراہم کر کے عوام اور فصلوں کو تباہی سے بچایا جا سکتا ہے میری وزیراعلی بلوچستان جناب سرفراز بگٹی صاحب سے اپیل ہے کہ کوشش کریں کہ یہ بلوچستان میں سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کا آخری سال ہو
سندھ میں کراچی ،حیدرآباد ،بدین، ٹھٹھہ سمیت بہت سے علاقے اس وقت بھی سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں منچھر جھیل اپنی گنجائش کے آخری پوائنٹ تک پہنچ چکی ہے اگر حکومت سندھ آج سے ہی کوشش شروع کر دے تو بڑے بڑے روہی نالوں اور نہروں کی مدد سے پانی کو راستہ فراہم کر کے دریائے سندھ تک پہنچا دیا جائے تو بھی بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے سندھ میں افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ وڈیروں کی زمینیں بچانے کے لیے انسانوں کی بلی چڑھا دی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں جناب وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ صاحب آپ بلا شبہ بہت قابل اور اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں برائے کرم ان تمام راستوں کو کا از خود معائنہ کریں جو سیلابی ریلوں نے بنائے ہیں انہی راستوں کو نہروں جھیلوں اور ٹوبوں کی شکل دے کر پانی کو کھلا راستہ فراہم کر دیں غیر آباد علاقوں میں بڑی بڑی جھیلیں بنانے کا انتظام کریں بارشوں کے پانی کو خزانہ سمجھ کر محفوظ کر لیں اور پھر اسے سندھ کے غیر آباد اور بنجر علاقوں کو قابل کاشت بنانے کے لیے استعمال میں لے آئیں یا پھر اس پانی کو سمندر میں پھینک دیں اور دریائے سندھ کے پانی کے ایک ایک قطرے کو زراعت کے لیے استعمال میں لے آئیں اگر آ پ ایسا کر گئے تو یقین کر لیں کہ سندھ کی کروڑوں ایکڑ بنجرز زمین آئندہ چند سالوں میں قابل کاشت ہو جائے گی جو سندھ سمیت وطن عزیز کے لیے بڑا زر مبادلہ اکٹھا کرنے کا سبب بنے گی
میں نے اپنے گزشتہ کالموں کی طرح قابل عمل تجاویز ہمارے تینوں معزز وزرائے اعلی کی خدمت میں پیش کر دیں ہیں میرا فرض یہیں تک تھا اس سے آگے میرے حکمرانوں کی مرضی ہے کہ وہ آئندہ بارشوں سے اپنے اپنے صوبوں فصلوں اور عوام کو محفوظ بناتے ہیں یا انہیں سیلاب کے بے رحم ریلوں کے سپرد کر کے خود خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں