واہ رے کسان تیری قسمت | Sohail Bashir Manj

گزشتہ ایک ہفتے سے میں رحیم یار خان، احمد پور شرقیہ، بہاولپور، ملتان ،شجاع آباد ،ڈیرہ غازی خان سمیت پنجاب کے بیشتر شہروں کے وزٹ پر ہوں اس وقت جو حال پیسٹی سائیڈز اور سیڈ کمپنیوں کا ہے پہلے کبھی نہ تھا  بہت سی کمپنیاں ڈیفالٹ کر چکی ہیں بہت سوں نے ساٹھ  فیصد تک ڈاؤن سائزنگ کر دی ہے بہت سے تجربہ کار لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں یہ نوجوان اپنے تجربہ کے سرٹیفکیٹس اور ڈگریاں اٹھائے دوسری کمپنیوں کے دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں لیکن کہیں بھی نوکری موجود نہیں ہے اس صورتحال کی وجہ  حکومت کی ناقص پالیسیاں، کسانوں کی بدحالی ،راءمٹیریل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی ہے 
اب تک میں بہت سے کسانوں سے ان کے گھروں میں جا کر ملا ہوں رقم کا تقاضا کرتے ہی وہ مجھے اپنے گھروں کے اندر لے جاتے یقین کریں کسانوں کے گھروں میں گندم کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جن میں سے بہت سوں کی گندم کو سنڈی اور کھپرا لگ چکا ہے وہ آدھی قیمت پر فروخت کرنے کے لیے بھی تیار ہے لیکن کوئی خریدار نہیں کسی کے گھر میں تل کی بوریاں پڑی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس خطرے کا شکار ہو رہے ہیں کہ کہیں نمی کی وجہ سے انہیں کیڑا نہ لگ جائے دوسرے گھر  جاتے ہیں تو مکئی کے انبار لگے نظر آتے ہیں جو نمی کا تناسب زیادہ ہونے اور قیمت کم لگنے کی وجہ سے فروخت نہیں ہو پا رہی کسی کے گھر میں چاول کی فصل آ رہی ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ آئندہ چند دنوں میں ہو جائے گا شوگر ملوں نے ابھی تک کریشنگ سیزن کا آغاز نہیں کیا جس کی وجہ سے گنے کی فصل کی کٹائی شروع نہیں ہو رہی اوپر سے گندم کی بوائی کا وقت سر پر ہے کسان کے پاس بیج، زمین کی تیاری مہنگی ڈی اے پی اور یوریا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں 
حکومت ان تمام حالات سے بخوبی واقف ہے لیکن اس کے باوجود زرعی ٹیکس کی وصولی کے لیے کسانوں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں پٹواری اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر ٹیکس وصولی میں سرگرم ہیں 
جناب وزیرعلی آپ بخوبی جانتی ہیں کہ گندم کی خریدداری کے وقت عبوری حکومت کے سربراہ نے اس وقت یوکرین سے گندم منگوائی جس کی نہ تو ملک کو ضرورت تھی اور نہ ہی وقت یہ جہاز فروری میں 
آ ئے اور مارچ کے آخری ہفتے میں ہماری مقامی گندم آنا شروع ہو گئی حکومت پنجاب نے گندم کی خریداری نہ تو خود کی اور نہ ہی کسی دوسرے صوبے کو کرنے دی  ہماری حکومت کی ناہلی کی وجہ سے گندم کسانوں کے گھروں میں پڑی تھی تو حکومت کو چاہیے تھا کہ گندم اٹھاتے اور اسے ایکسپورٹ کر دیتے یا پھر افغانستان سمگل کرنے کی اجازت دے دی جاتی تو میرے کسانوں کی یہ حالت نہ ہوتی 
اگر حالات ایسے ہی رہے تو بہت سے کسان  حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے متنفر ہو جائیں گے اور اگر میرا کسان ہار گیا تو خدانخواستہ پنجاب اور پھر پاکستان بھی ہار جائے گا
اگر حکومت پنجاب کسانوں کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے آج سے ہی کوئی ترتیب بنانی ہوگی اگر آپ کے قیمتی اذہان آپ کو اچھے مشورے دینے میں ناکام ہیں تو میں پیش کیے دیتا ہوں امید ہے یہ آپ اور میرے کسانوں کے لیے فائدہ مند ہوں گے 
جناب وزیراعلی جس طرح حکومت پوری کوشش کے ساتھ گندم کی خریدداری کرتی ہے اسی طرح باقی اجناس کی خریدداری بھی کرے تاکہ کسان ہر قسم کے خوف سے بالاتر ہو کر کاشتکاری کرے اجناس کی بوائی کے وقت ہی اس کی قیمت کا تعین کر دیا جائے اور اس پر سخت چیک بھی رکھا جائے تاکہ اوپن مارکیٹ اور سرکار کی قیمت خرید برابر ہو اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ حکومت کے پاس ہر فصل کا سٹاک موجود ہوگا جہاں سے تمام لوگ اور کمپنیاں   خرید سکیں اور انہیں بیرونی معاہدوں کے کی تکمیل کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے 
آپ نے گرین ٹریکٹر سکیم اور کسان کارڈ کا اجراء کیا بلاشبہ یہ بہت اچھا قدم ہے لیکن اس کا فائدہ صرف ایک فیصد کسانوں کو ہوگا یعنی اگر آپ پنجاب کے بتیس اضلاع میں ایک ہزار ٹریکٹر فی ضلع بھی دے دیں  تب بھی صرف ایک ہزار لوگوں کو فائدہ ہوگا اس کی جگہ اگر یوریا اور ڈی اے پی کی قیمت کم کر دی جائے تو اس کا فائدہ تمام کسانوں کو ہوگا جبکہ ٹریکٹر سکیم کا فائدہ چند کسانوں یا پھر ٹریکٹر ساز کمپنیوں کو ہوگا 
جناب وزیر اعلی برائے کرم ایک دن کسانوں کے لیے نکال لیں وہ اپنی چار فصلوں کی بربادی پر بہت خفا ہیں ان کے مسائل سنیں ان کو حل کرنے کی کوشش کریں اور آپ یہ کر سکتی ہیں اگر آپ ان کی ہر فصل کی خریداری شروع کر دیں تو ٹیکس گھر بیٹھے جمع ہونا شروع ہو جائے گا اور آ پ کے پاس اتنا سٹاک بھی موجود ہوگا جو صوبائی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت خود ایکسپورٹ کر کے منافع بھی کما سکے گی اس وقت کسان جس بے یقینی کا شکارہیں انہیں وہاں سے نکالنے کے لیے آپ کی توجہ، ٹیکس کلیکشن میں نرمی، جدید ریسرچ، موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ بیج اور گورنمنٹ کی طرف سے تجویز کی ہوئی پیسٹی سائیڈز اور اجناس کی فروخت کی یقین دہانی کی ضرورت ہے  
اسی حوالے سے میری ایگریکلچر منسٹر  عاشق حسین صاحب سے بات ہوئی ہے انہوں نے مجھے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی ہے انشاءاللہ میں جلد ان کے پاس 
 جا کر اپنی گزارشات ان کے توسط سے

 وزیراعلی پنجاب تک پہنچاؤں گا